(آیت 37) ➊ اِرْجِعْ اِلَيْهِمْ فَلَنَاْتِيَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ …: یہاں کچھ عبارت محذوف ہے، یعنی یہ تحفے تحائف لے کر واپس چلے جاؤ اور انھیں بتاؤ کہ اگر وہ تابع فرمان ہو کر حاضر نہ ہوئے تو ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے جن کے مقابلے کی ان میں کوئی طاقت نہ ہو گی۔
➋ وَ لَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَاۤ اَذِلَّةً وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ: ذلت یہ کہ سلطنت اور حکومت چھن جائے گی اور” صغار “(حقارت اور پستی) یہ کہ غلام اور قیدی بنیں گے، یا جلاوطن کیے جائیں گے۔ یہ معاملہ صرف ملکہ سبا کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مسلمانوں کو تمام دنیا کے کفار سے لڑتے رہنے کا حکم ہے، حتیٰ کہ وہ مسلمان ہو جائیں یا اپنے ہاتھ سے جزیہ دینے کی ذلت قبول کریں اور مسلمانوں کے سامنے پست اور حقیر ہوں، جیسا کہ فرمایا: « قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ »[ التوبۃ: ۲۹ ]”لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔“ افسوس! اس کتاب ہدایت نے تو سلیمان علیہ السلام کے واقعہ کے ساتھ بھی اور صریح الفاظ میں بھی مسلمان کو حکم دیا تھا کہ تمام دنیا کے کفار سے لڑتے رہو، حتیٰ کہ وہ اسلام قبول کر لیں یا اپنے ہاتھ سے جزیہ دے کر مسلمانوں کے ماتحت ہو کر زندگی بسر کریں، مگر مسلمانوں نے یہ سبق بھلا دیا اور شہادت اور جنت کی لذتوں کی طلب کے بجائے دنیائے فانی کے عیش و عشرت میں کھو گئے اور جہاد سے ہاتھ اٹھا بیٹھے۔ نتیجہ کفار کی ذلّت و پستی کے بجائے مسلمانوں کی ذلّت و پستی کی صورت میں سب کے سامنے ہے اور بقول امام مالک رحمہ اللہ: ” لَنْ يَّصْلُحَ آخِرُ هٰذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا بِمَا صَلُحَ بِهِ أَوَّلُهَا “[ شرح سنن أبي داوٗد لعبد المحسن العباد: 334/2]”اس امت کے آخر کی اصلاح بھی اسی نسخے کے ساتھ ہو گی جس کے ساتھ اس امت کے اول کی اصلاح ہوئی تھی۔“