(آیت 24)وَجَدْتُّهَا وَ قَوْمَهَا يَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ …: یعنی ہر قسم کی نعمت میسر ہونے پر لازم تھا کہ وہ ان نعمتوں کے عطا کرنے والے کی عبادت کرتے اور اسی کو سجدہ کرتے، مگر میں نے دیکھا کہ اس کے بجائے وہ اور اس کی قوم سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوش نما بنا دیے ہیں اور انھیں اصل راستے سے روک دیا ہے، لہٰذا وہ ہدایت نہیں پاتے۔ یعنی ان کے ہدایت نہ پانے کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے ان کی نگاہ میں سورج کی پرستش مزین کر دی ہے، اس لیے وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھ رہے ہیں۔ اب غلط راستے پر چلنے والا کوئی شخص یقین کر لے کہ میں صحیح جا رہا ہوں اور غلطی بتانے والے کی دشمنی پر اتر آئے تو وہ کبھی سیدھے راستے پر نہیں آ سکتا۔ یہ کہہ کر ہد ہد نے گویا سلیمان علیہ السلام کو اس قوم سے جہاد کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ یہاں اعمال مزین کرنے کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے، کیونکہ وہ لوگوں کی نگاہ میں گناہ کو مزین کرتا ہے۔ دوسری جگہ کفار کے لیے اعمال مزین کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی ہے، جیسا کہ اسی سورت کی آیت (۴) میں ہے، کیونکہ مخلوق کے ہر عمل کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمایا تھا: «وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ »[ الصافات: ۹۶ ]”حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو۔“