(آیت 19) ➊ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا: تبسم بعض اوقات غصے اور ناراضی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، جیسا کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیثِ توبہ میں ہے: [ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ ][ بخاري: ۴۴۱۸ ] کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے، غصے والے کی طرح مسکرانا۔ تبسم کے بعد ” ضَاحِكًا “ اس لیے فرمایا کہ یہ مسکراہٹ ہنسنے کا پیش خیمہ تھی، جو خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ مسکرانے اور ہنسنے کی وجہ ایک تو چیونٹی کی دانش مندی اور اپنی قوم کی خیر خواہی پر تعجب تھا، دوسری وجہ اپنی نیک شہرت پر خوشی تھی کہ چیونٹیاں تک جانتی ہیں کہ سلیمان دانستہ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔
➋ وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْۤ …: چیونٹی کی آواز سن لینا، پھر اس کی بات سمجھ لینا، پھر اپنی نیک شہرت، یہ سب ایسی چیزیں تھیں کہ سلیمان علیہ السلام کا دل فخر و غرور کے بجائے شکر کے جذبات سے لبریز ہو گیا۔ مگر یہ سوچ کر کہ میں اس نعمت کا اور ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہیں، انھوں نے اللہ تعالیٰ سے شکر کی توفیق عطا کرنے کی دعا کی۔ والدین پر نعمت بھی آدمی کے حق میں نعمت ہوتی ہے۔
➌ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ: عمل صالح وہ ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ سلیمان علیہ السلام کو علم عطا ہونے پر عمل کی فکر دامن گیر ہوئی، کیونکہ عمل کے بغیر علم انسان کے خلاف حجت ہوتا ہے۔
➍ وَ اَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ: اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے صالح بندوں میں شمولیت اور جنّت کا حصول اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: [ لَنْ يُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُهُ الْجَنَّةَ، قَالُوْا وَلَا أَنْتَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ لَا، وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰهُ بِفَضْلٍ وَ رَحْمَةٍ ][ بخاري، المرضٰی، باب تمني المریض الموت: ۵۶۷۳ ]”کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔“ لوگوں نے کہا: ”یا رسول اللہ! کیا آپ کو بھی نہیں؟“ فرمایا: ”نہیں! میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔“
➎ سلیمان علیہ السلام نے نبی ہو کر صالحین میں داخل ہونے کی دعا کیوں کی؟ دیکھیے سورۂ یوسف (۱۰۱)۔