(آیت 16) ➊ وَ وَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ …: اس سے مراد مال و جائداد کی وراثت نہیں بلکہ نبوت و سلطنت اور علم و عمل کی وراثت ہے۔ اگر مال و جائداد کی وراثت ہوتی تو وارث کے طور پر صرف سلیمان علیہ السلام کا ذکر نہ ہوتا بلکہ اس میں داؤد علیہ السلام کے دوسرے بیٹے بھی شریک ہوتے۔ علاوہ ازیں اگر ان کے ذاتی اموال کی وراثت ہی مراد ہو تو سلیمان علیہ السلام کا ”يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ “ کہہ کر سب لوگوں کو بتانا بے معنی ہو جاتا ہے۔ انبیائے کرام علیھم السلام کے اموال و جائداد کا کوئی وارث نہیں ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَا نُوْرَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ][ بخاري، الفرائض، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا نورث…: ۶۷۲۷، عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ]”ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں صدقہ ہے۔“ اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءَ وَ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوْا دِيْنَارًا وَلَا دِرْهَمًا، وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ][أبوداوٗد، العلم، باب في فضل العلم: ۳۶۴۱، قال الألباني صحیح ]”یقینا علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے ورثے میں دینار و درہم نہیں چھوڑے، انھوں نے صرف علم کا ورثہ چھوڑا ہے، توجو اسے حاصل کر لے اس نے بہت بڑا حصہ حاصل کر لیا۔“ مزید دیکھیے سورۂ مریم (۵، ۶)۔
➋ وَ قَالَ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ: یعنی ہمیں پرندوں کی بولی سمجھنا سکھایا گیا ہے، بلکہ بولنا بھی، جیسا کہ سلیمان علیہ السلام کا ہُد ہُد سے مکالمہ آگے آ رہا ہے، پھر انھیں صرف پرندوں ہی نہیں بلکہ تمام حیوانات کی بولی سکھائی گئی تھی، جیسا کہ چیونٹی کی بات سننے کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ پرندوں کا ذکر اختصار کے لیے ہے، کیونکہ پرندے تمام جانداروں سے زیادہ انسان سے دور رہنے اور بدکنے والے ہیں۔ جب داؤد اور سلیمان علیھما السلام ان کی بولی جانتے تھے تو دوسرے جانوروں کی بولی کا علم تو انھیں بالاولیٰ تھا، جو انسان کے قریب رہتے ہیں۔ تمام جانوروں میں سے پرندوں کا ذکر خاص طور پر اس لیے بھی ہے کہ وہ ان کی فوج کا باقاعدہ حصہ تھے۔ پرندوں کی بولی کے علم سے مراد اندازوں پر مبنی علم نہیں، جو علم الحیوانات کے ماہرین ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ مراد واضح طور پر ان کی باتوں کو سمجھنا ہے، جو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطا کر دہ خاص معجزہ تھا۔
➌ وَ اُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ:” كُلِّ شَيْءٍ “ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ اس میں علم و نبوت، مال و حکمت حتیٰ کہ جنوں، انسانوں، پرندوں، حیوانات اور ہوا وغیرہ کی تسخیر سبھی چیزیں شامل ہیں۔ (شوکانی) یہاں ” كُلِّ “ کا لفظ کثیر کے معنی میں ہے، جیسا کہ ہُد ہُد نے ملکہ سبا کے متعلق کہا تھا: « وَ اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ »[النمل: ۲۳ ]”اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔“ حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ اسے ہر چیز میں سے حصہ تو نہیں ملا تھا، اور جیسا کہ قوم عاد پر آنے والی آندھی کے متعلق فرمایا: « تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۭ بِاَمْرِ رَبِّهَا »[الأحقاف: ۲۵ ]”وہ (آندھی) ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔“
➍ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ: فضل کا معنی برتری ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں عطا کرنے کے لیے بے شمار انسانوں میں سے ہمیں منتخب فرمایا، یقینا یہ واضح برتری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ یہ بتانے سے سلیمان علیہ السلام کا مقصد فخر کا نہیں بلکہ شکر کا اظہار تھا۔ اس کے علاوہ لوگوں کو یہ بات بتانا ان کی ذمہ داری تھی، تاکہ لوگ ان کی قدر پہچانیں اور ان کی اطاعت کریں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ ][ ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ بني إسرائیل: ۳۱۴۸، قال الألباني صحیح ]”میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں اور کوئی فخر نہیں۔“