(آیت 15) ➊ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَيْمٰنَ عِلْمًا: موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے قصّے میں ان لوگوں کا نمونہ ملتا ہے جنھوں نے جانتے بوجھتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کیا، جیسے ابو لہب اور ابوجہل وغیرہ اور سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کے قصّے میں ان لوگوں کا نمونہ ہے جو حق واضح ہونے پر ایمان لے آئے اور فرعون کے طرز عمل کے برعکس ان کی سلطنت ان کے لیے حق کے اعتراف میں رکاوٹ نہیں بنی۔ یہی حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کا تھا۔ یمن کا بادشاہ نجاشی ہو یا سردارانِ قریش میں سے ایمان لانے والے ہوں، یا مدینہ کے اوس و خزرج کے سردار۔
➋ ” عِلْمًا “ کی تنوین تنکیر کے لیے بھی ہو سکتی ہے، جس سے ایک قسم کا علم مراد ہو، یعنی ہم نے ان دونوں کو ایک علم عطا کیا جو دوسروں کو عطا نہیں کیا گیا۔ مراد پرندوں کی بولی کا علم ہے۔ ابن کثیر فرماتے ہیں: ”ہمیں ان دو پیغمبروں کے سوا کسی کے متعلق معلوم نہیں کہ ان کو یہ علم دیا گیا ہو۔“ اور یہ تنوین تعظیم کے لیے بھی ہو سکتی ہے، یعنی ہم نے ان دونوں کو عظیم الشان علم عطا کیا، جس میں نبوت و حکمت، قضا و سلطنت، پرندوں کی بولی اور سائنس کے علوم شامل تھے۔ جن کی بدولت ان کے زمانے میں ان کی سلطنت برّی، بحری اور فضائی اعتبار سے اپنے دور کی سب سے طاقت ور حکومت تھی، بلکہ سلیمان علیہ السلام کو تو وہ حکومت عطا کی کہ قیامت تک آنے والی کوئی سلطنت بھی ان کی سلطنت جیسی نہیں ہو سکتی، کیونکہ انھوں نے دعا کی تھی: « رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ »[ صٓ: ۳۵ ]”اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔“
➌ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ …: یہ بھی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کا حصہ تھا کہ ان تمام نعمتوں پر مغرور ہونے کے بجائے انھوں نے انھیں اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھا اور اس کا شکر ادا کیا۔
➍ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيْرٍ …:”جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی“ سب پر فضیلت کا دعویٰ اس لیے نہیں کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کو اس دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہوا تھا اور داؤد اور سلیمان علیھما السلام جو موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر چلتے تھے، یہ جانتے ہوئے تمام بندوں پر فضیلت کا دعویٰ نہیں کر سکتے تھے اور اس لیے کہ تمام اولاد آدم پر فضیلت تو صرف خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ أَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَ أَوَّلُ شَافِعٍ وَ أَوَّلُ مُشَفَّعٍ ][ مسلم، الفضائل، باب تفضیل نبینا صلی اللہ علیہ وسلم علی جمیع الخلائق…: ۲۲۷۸ ]”میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں اور پہلا شخص ہوں جس سے قبر پھٹے گی اور پہلا سفارش کرنے والا ہوں اور پہلا شخص ہوں جس کی سفارش قبول کی جائے گی۔“