تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 8)فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِيَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ …: موسیٰ علیہ السلام جب اس آگ کے پاس آئے تو انھیں آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو آگ میں ہے اور جو اس کے ارد گرد ہے۔ یہاں سوال ہے کہ مَنْ فِي النَّارِ (وہ جو آگ میں ہے) سے مراد کون ہے؟ اور مَنْ حَوْلَهَا (جو اس آگ کے اردگرد ہے) سے مراد کون ہے؟ بعض مفسرین نے مَنْ فِي النَّارِ سے مراد موسیٰ علیہ السلام لیے ہیں اور کہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام آگ کے قریب تھے، اس لیے ان کو مَنْ فِي النَّارِ کہہ دیا گیا اور مَنْ حَوْلَهَا سے مراد فرشتے ہیں۔ بعض نے ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام اور فرشتوں کے لیے سلام کے قائم مقام قرار دیا ہے، جس طرح فرشتوں نے سارہ علیھا السلام کو رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ کہا تھا۔ صاحبِ مواهب الرحمان فرماتے ہیں، یہ تکلف سے خالی نہیں۔ زمخشری اور ان کے ہم خیال حضرات نے بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ کا معنی بُوْرِكَ فِيْ مَكَانِ النَّارِ کیا ہے، یعنی آگ کی جگہ بابرکت ہے اور اس کے اردگرد کی جگہ، یعنی سارا ملک شام بابرکت ہے۔ مگر مَنْ ذوی العقول کے لیے آتا ہے، اس سے مکان مراد لینا بعید بات ہے۔ سب سے ظاہر بات وہ ہے جو عبد الرزاق نے اپنی صحیح سند کے ساتھ قتادہ سے نقل کی ہے، انھوں نے فرمایا: نُوْرُ اللّٰهِ بُوْرِكَ یعنی اللہ کا نور بابرکت ہے۔ عبد الرزاق ہی نے حسن کا قول نقل کیا ہے کہ مَنْ فِي النَّارِ سے مراد نور ہے اور مَنْ حَوْلَهَا سے مراد فرشتے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ بابرکت ہے وہ ذات پاک جو اس آگ میں ہے اور وہ فرشتے بھی جو اس کے ارد گرد ہیں۔ اس معنی کی تائید اگلی آیت میں مذکور الفاظ يٰمُوْسٰۤى اِنَّهٗۤ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ سے بھی ہوتی ہے۔ یہ آگ جو موسیٰ علیہ السلام کو نظر آئی اللہ تعالیٰ کی ذات کا نور نہیں تھی بلکہ نور یا نار کا وہ پردہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے چہرے کا حجاب ہے۔ یہ تفسیر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیٹے ابوعبیدہ نے اللہ تعالیٰ کے نور کے پردوں والی حدیث بیان کرتے ہوئے زیرِ تفسیر آیت کی تلاوت کرکے فرمائی ہے۔

صحیح مسلم میں ابو عبیدہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں بیان فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ لَا يَنَامُ وَلَا يَنْبَغِيْ لَهُ أَنْ يَّنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَ عَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، حِجَابُهُ النُّوْرُ وَفِيْ رِوَايَةِ أَبِيْ بَكْرٍ النَّارُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهٰی إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ ] [ مسلم، الإیمان، باب في قولہ علیہ السلام إن اللہ لا ینام …: ۱۷۹ ] اللہ عز و جل سوتا نہیں، نہ ہی سونا اس کے لائق ہے۔ وہ ترازو کو نیچا کرتا ہے اور اسے اونچا کرتا ہے، رات کا عمل اس کی طرف دن کے عمل سے پہلے اوپر لے جایا جاتا ہے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس کی طرف اوپر لے جایا جاتا ہے، اس کا حجاب نور ہے۔ ابوبکر کی روایت میں (نور کی جگہ) نار ہے۔ اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کی شعائیں اس کی مخلوق میں سے ان سب چیزوں کو جلا دیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ابوعبیدہ نے یہ حدیث بیان کر کے یہ آیت پڑھی: «فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِيَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَا وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ » [ مسند أحمد: 400/4، ۴۰۱، ح: ۱۹۶۰۶ ] اور ابن ابی حاتم نے بھی اپنی تفسیر میں سورۂ نمل کی اس آیت کے تحت یہ حدیث بیان فرمائی ہے، جس کے آخر میں ابوعبیدہ نے اس آیت کی تلاوت کی ہے۔ ابن ابی حاتم کے محقق نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [ الصحیح المسبور ]

یونانی فلسفے سے متاثر بہت سے مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے متعلق قرآن و حدیث میں بیان کی گئی بہت سی باتوں کا انکار کر دیا، یا ان کی تاویل کی، مثلاً قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ وہ جب چاہے جہاں چاہے نور یا نار کے پردے میں محجوب رہ کر نزول فرماتا ہے، وہ رات کے پچھلے پہر آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ قیامت کے دن زمین پر نزول فرمائے گا، اس دن اس کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ وہ جب چاہے، جو چاہے، جس سے چاہے کلام کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ ہمارے ان مفسرین نے ان سب باتوں کو اللہ تعالیٰ کی شان کے منافی قرار دے کر ان کا انکار کر دیا، یا ان کی ایسی تاویل کی جو انکار سے بھی بدتر ہے۔ ان حضرات نے یہ نہ سوچا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے بڑھ کر اللہ کی شان نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ بیان کر سکتے ہیں۔ اس مقام پر مَنْ فِي النَّارِ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے بجائے موسیٰ علیہ السلام یا کوئی اور مراد لینے کے پیچھے بھی یہی مشکل کار فرما ہے۔

وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: یہ اس بات کی تردید ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے آگ کے حجاب میں نزول کو یا بذات خود کلام کرنے کو اپنے نزول یا کلام کرنے کی طرح سمجھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فرمایا: « لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ » [ الشورٰی: ۱۱ ] اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ یعنی یہ بھی مانو کہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں او ریہ بھی مانو کہ وہ سمیع بھی ہے بصیر بھی، مگر اس کا سمع و بصر تمھاری مثل نہیں۔

➌ بعض حضرات نے اس جگہ کی تعیین کا تکلف کیا ہے، جہاں موسیٰ علیہ السلام کو یہ معاملہ پیش آیا تھا اور انھوں نے عیسائی بادشاہ قسطنطین کے ۳۶۵ء میں اس مقام پر ایک کنیسہ تعمیر کرنے کو بطور دلیل پیش کیا ہے، بلکہ لوگوں کی روایات کو بنیاد بنا کر ایک درخت کو بھی وہ درخت قرار دے دیا ہے جس میں موسیٰ علیہ السلام کو آگ نظر آئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی معتبر دلیل نہیں کہ ہم اس جگہ کی تعیین کر سکیں۔ ہدایت کے لیے وہی کافی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بیان فرما دیا ہے، اگر اس کی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی تعیین فرما دیتے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.