(آیت 5)اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْعَذَابِ …: یہ برا عذاب دنیا میں بھی ہے کہ اموال و اولاد کے باوجود انھیں قناعت اور سکون قلب میسر نہیں، فرمایا: « وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى »[ طٰہٰ: ۱۲۴ ]”اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔“ بلکہ وہ اموال و اولاد ان کے لیے عذاب کا باعث ہیں، جیسا کہ فرمایا: « فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ »[ التوبۃ: ۵۵ ]”سو تجھے نہ ان کے اموال بھلے معلوم ہوں اور نہ ان کی اولاد، اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ انھیں ان کے ذریعے دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔“ اس کے علاوہ بھی یہ عذاب مختلف افراد اور اقوام پر مختلف صورتوں میں آتا ہے۔ بیماریاں، فقر، بدامنی، قتل و غارت اور دشمن کا غلبہ، غرض عذاب کی بے شمار صورتیں ہیں، پھر موت کے وقت فرشتوں کے ہاتھوں عذاب اور برزخ کے عذاب کا مرحلہ ہے اور آخرت کے عذاب کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو آخرت میں سب سے زیادہ خسارے والے قرار دیا۔