(آیت 225)اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ: یہ شاعروں کی دوسری خصوصیت ہے جو یہاں بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب انھیں کوئی خیال آتا ہے اسے اچھوتے انداز میں شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں، انھیں اس سے غرض نہیں کہ وہ رحمانی ہے یا شیطانی، روحانی ہے یا نفسانی، اس سے خیر کے جذبات پیدا ہوں گے یا شر کے۔ کبھی کسی کی تعریف کرکے اسے آسمان پر چڑھا دیتے ہیں اور کبھی کسی کی ہجو اور مذمت کرکے اسے آسمان سے زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ ایک شعر سے معلوم ہو گا کہ شاعر ولی ہے جب کہ دوسرے شعر سے پتا چلے گا کہ وہ شیطان ہے۔ ایک ہی سانس میں وہ نیکی اور بدی دونوں کی باتیں بے تکلف کہہ دے گا، لیکن کہے گا ایسے مؤثر اور دلکش انداز میں کہ سننے والے ان دونوں سے متاثر ہو جائیں گے، لیکن نفس انسانی کو چونکہ نیکی کے بجائے بدی کی باتیں ہی عموماً مرغوب ہوتی ہیں، اس لیے شاعر کے چھوڑے ہوئے بدی والے اثرات و نقوش تو قائم رہتے ہیں، مگر نیکی کے اثرات غائب ہو جاتے ہیں اور اس طرح ان کا کلام ” وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا “ کا مصداق بن جاتا ہے۔ (تفسیر مدنی)