تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 189) فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ …: اس عذاب کی کوئی تفصیل قرآن مجید یا کسی صحیح حدیث میں نہیں آئی۔ ظاہر الفاظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کچھ ٹکڑے گرانے کے مطالبے کے جواب میں ان پر بادل کا ایک سائبان بھیج دیا، جس سے ایسا عذاب برسا کہ وہ تباہ و برباد ہو گئے۔ اس عذاب کی حقیقت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، مگر خود اللہ تعالیٰ نے اس سوال کا جواب دیا کہ وہ کس قسم کا عذاب تھا، فرمایا یقینا وہ ایک عظیم دن کا عذاب تھا۔ جب وہ دن عظیم تھا تو اس میں اترنے والے عذاب کی عظمت کا خود اندازہ کر لو۔

➋ یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصحابِ مدین اور اصحاب الایکہ الگ الگ قومیں تھیں، کیونکہ اصحاب الایکہ پر يَوْمِ الظُّلَّةِ کا عذاب آیا، جب کہ اصحابِ مدین پر زلزلے اور صیحہ (چیخ) کا عذاب آیا تھا، جیسا کہ فرمایا: « فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ » [ الأعراف: ۷۸ ] تو انھیں زلزلے نے پکڑ لیا تو انھوں نے اپنے گھر میں اس حال میں صبح کی کہ گرے پڑے تھے۔ اور فرمایا: « وَ اَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دِيَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ » [ ھود: ۶۷] اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا انھیں چیخ نے پکڑ لیا، تو انھوں نے اپنے گھروں میں اس حال میں صبح کی کہ گرے پڑے تھے۔

بعض مفسرین نے سائبان کے عذاب کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ اصحاب الایکہ پر پہلے سات دن تک سخت لو چلتی رہی، جس سے ان کے بدن پک گئے، چشموں اور کنووں کا پانی سوکھ گیا۔ وہ گھبرا کر جنگل کی طرف نکلے، وہاں دھوپ کی شدت اور نیچے سے گرم زمین نے ان کے پاؤں کی کھال اتار دی، پھر ایک سیاہ بادل سائبان کی شکل میں نمودار ہوا، وہ سارے کے سارے خوشی کے مارے اس کے سائے میں جمع ہو گئے، اس وقت اچانک بادل سے آگ برسنا شروع ہوئی جس سے سب ہلاک ہو گئے۔ مگر ہم مفسرین کی اس تفصیل کو نہ سچا کہتے ہیں نہ جھوٹا، کیونکہ یہ نہ قرآن مجید سے ثابت ہے نہ صحیح حدیث سے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.