(آیت 161،160)كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍ المُرْسَلِيْنَ …: لوط علیہ السلام کے حالات کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۸۰ تا ۸۴)، ہود (۷۷ تا ۸۳)، حجر (۶۱ تا ۷۷)، انبیاء (۷۱ تا ۷۵)، نمل (۵۴ تا ۵۸)، صافات (۱۳۳ تا ۱۳۸) اور قمر (۳۳ تا ۳۹) لوط علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اصلاً یہ عراق کے رہنے والے تھے، انھیں جن بستیوں کی طرف مبعوث کیا گیا ان کا صدر مقام سدوم تھا، اس کے رہنے والوں کو لوط کی قوم اس لیے کہا گیا کہ وہ ان میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ ممکن ہے ان کی بیوی بھی انھی میں سے ہو۔ اگلی آیت میں لوط علیہ السلام کو ان کا بھائی اسی مناسبت سے کہا گیا ہے، ورنہ ان کا ان سے نسبی رشتہ نہیں تھا۔ اسی لیے جب ان کی قوم کے بدمعاش ان کے مہمانوں کی بے عزتی پر تل گئے تو انھوں نے کہا: « لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْۤ اِلٰى رُكْنٍ شَدِيْدٍ »[ ھود: ۸۰ ]”کاش! واقعی میرے پاس تمھارے مقابلہ کی کچھ طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔“ تفصیل سورۂ اعراف (۸۰ تا ۸۴)، ہود (۷۷ تا ۸۳) اور حجر (۶۱ تا ۷۷) میں دیکھیے۔