(آیت 152،151)وَ لَا تُطِيْعُوْۤا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ …: یعنی ان لوگوں کا کہنا مت مانو جو اخلاق و تہذیب کی ساری حدیں پھلانگ کر شتر بے مہار بن گئے ہیں۔ مراد ان کے وہ سردار اور امراء ہیں جو شرک و کفر کے داعی اور حق کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور جن کی زیرِ قیادت ان کا بگڑا ہوا نظامِ زندگی چل رہا تھا، ایسے لوگ ہمیشہ زمین میں فساد ہی پھیلاتے ہیں، ان کے ہاتھوں اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ” الْمُسْرِفِيْنَ “ میں سب سے پیش پیش وہ نو (۹) بدمعاش تھے جنھوں نے ملک میں فساد مچا رکھا تھا اور آخر کار قوم کی تباہی کا سبب بنے، فرمایا: « وَ كَانَ فِي الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَ لَا يُصْلِحُوْنَ »[ النمل: ۴۸ ]”اور اس شہر میں نو(۹) شخص تھے، جو اس سرزمین میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔“