(آیت 129)وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ …:” مَصَانِعَ “”مَصْنَعٌ“ یا ”مَصْنَعَةٌ“ کی جمع ہے۔ مختار الصحاح اور قاموس میں اس کا معنی بڑے بڑے قلعے، مضبوط محلات اور زمین دوز نہریں لکھا ہے۔ راغب لکھتے ہیں کہ ”صَنْعٌ“ کا معنی کوئی کام عمدہ طریقے سے کرنا ہے۔ عالی شان جگہوں کو ” مَصَانِعَ “ کہا گیا ہے۔ ” لَعَلَّكُمْ “”لَعَلَّ“ کا معنی ہے ”امید ہے، شاید“ یہاں یہ ”كَأَنَّ“ کا مفہوم ادا کر رہا ہے ”گویا، جیسے۔“ یہ ان کا دوسرا کام ہے جس پر ہود علیہ السلام نے انکار کا اظہار فرمایا، اس سے ان کی ہمیشہ زندہ رہنے کی حرص اور لمبی امید کا اظہار ہوتا تھا۔ یعنی تمھاری دوسری قسم کی تعمیرات ایسی ہیں جو اگرچہ استعمال کے لیے ہیں مگر انھیں شاندار، مزین اور مستحکم بنانے کے لیے تم اپنی دولت، محنت اور قابلیت اس طرح صرف کرتے ہو جیسے تمھیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے، اس کے سوا تمھیں کسی اور زندگی کی فکر ہی نہیں۔
ابن کثیر نے ابن ابی حاتم سے نقل فرمایا ہے کہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے ”غوطہ“ میں مسلمانوں کی بنائی ہوئی عمارتیں اور شجر کاری دیکھی تو ان کی مسجد میں جا کر آواز دی: ”اے دمشق والو!“ وہ ان کے پاس جمع ہو گئے، تو انھوں نے اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: ”کیا تم حیا نہیں کرتے؟ کیا تم حیا نہیں کرتے؟ تم وہ کچھ جمع کر رہے ہو جو کھاتے نہیں اور وہ عمارتیں بنا رہے ہو جن میں رہتے نہیں اور اس کی امید کرتے ہو جو کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے کئی صدیاں گزریں، وہ لوگ جمع کرتے تھے، پھر اس کی حفاظت کرتے تھے، عمارتیں بناتے تھے اور بہت مضبوط بناتے تھے، امیدیں باندھتے تھے اور بہت لمبی باندھتے تھے، پھر ان کی امید دھوکا نکلی اور ان کی جماعت ہلاک ہو گئی اور ان کی رہائش گاہیں قبریں بن گئیں۔ یاد رکھو! قوم عاد عدن سے عمان تک گھوڑوں اور اونٹوں کے مالک تھے، اب کون ہے جو مجھ سے ان کی میراث دو درہم میں خرید لے؟“ دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا، اس کی سند حسن ہے۔