(آیت 117)قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ كَذَّبُوْنِ: ” كَذَّبُوْنِ “ اصل میں ”كَذَّبُوْنِيْ“ ہے۔ جب قوم اس حد تک پہنچ گئی کہ اپنے رسول کو سنگسار کر دے اور اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو اطلاع بھی دے دی کہ اب ان میں سے مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا (دیکھیے ہود: ۳۷) تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اس دعا کے الفاظ قرآن میں مختلف مقامات پر موجود ہیں، فرمایا: « اَنِّيْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ »[ القمر: ۱۰ ]”کہ بے شک میں مغلوب ہوں، سو تو بدلا لے۔“ اور فرمایا: « رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا »[ نوح: ۲۶ ]”اے میرے رب! زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔“ یہاں انھوں نے جو کہا ہے کہ ”اے میرے رب! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا“ یہ اللہ کے حضور شکایت کے لیے ہے، یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات معلوم نہیں اور نوح علیہ السلام اسے بتا رہے ہیں۔