(آیت 114) وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِيْنَ: یہ سرداروں کے اس مطالبے کا جواب ہے کہ ان رذیلوں کو اپنے ہاں سے نکال دیں تو ہم آپ کی مجلس میں بیٹھیں، فرمایا میں کسی صورت ایمان والوں کو نکال دینے والا نہیں کہ انھیں دھکے دے کر نکال دوں۔ (نفی کی تاکید باء کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ترجمہ میں ”کسی صورت“ کا اضافہ کیا گیا ہے) یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو لوگ میری بات نہیں مانتے میں ان کے پیچھے پھرتا رہوں اور جو میری بات مانتے ہیں انھیں دھکے دے کر نکال دوں۔ (دیکھیے عبس: ۵ تا ۹) میرا کام تو صاف اور واضح الفاظ میں کفر کے برے انجام سے ڈرانا ہے، پھر جس کا جی چاہے مانے جس کا جی چاہے نہ مانے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی بعینہٖ یہی صورت پیش آئی، نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کی گفتگو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لیے سنائی جا رہی ہے، فرق صرف نوح علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، ورنہ دونوں کی دعوت اور دونوں کے لیے مغرور اور متکبر سرداروں کا جواب ایک ہی ہے۔ یقینا اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہت بڑی تسلی ہے کہ یہ سب کچھ آپ ہی پر نہیں گزر رہا، اہلِ زمین کی طرف سب سے پہلے رسول کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ اہلِ ایمان کو اپنے پاس سے نکالنے کی ممانعت کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۵۲، ۵۳) اور کہف (۲۸)۔