(آیت 108،107) اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ …: نوح علیہ السلام نے دعویٔ رسالت کے ثبوت کے طور پر دو چیزیں پیش فرمائیں، پہلی یہ کہ میں امانت دار ہوں، میری ساری عمر تمھارے سامنے گزری، تم میری امانت اور میرے صدق سے خوب واقف ہو، پھر تمھیں میری رسالت تسلیم کرنے میں رکاوٹ کیا ہے؟ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بات واشگاف الفاظ میں کہہ دینے کا حکم دیا، فرمایا: « فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ »[ یونس: ۱۶ ]”پس بے شک میں تم میں اس سے پہلے ایک عمر رہ چکا ہوں، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟“ حدیثِ ہرقل میں ابوسفیان نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صادق و امین ہونا تسلیم کیا تو ہرقل نے کہا: ”یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر جھوٹ سے تو اجتناب کرے اور اللہ پر جھوٹ باندھ دے کہ اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے۔“(دیکھیے بخاری: ۷) غرض نوح علیہ السلام نے قوم کو اپنے امین ہونے کا حوالہ دے کر اپنی رسالت کی اطلاع دی اور فرمایا (چونکہ میں رسول امین ہوں) اس لیے تم اللہ سے ڈرو کہ مجھے جھٹلا کر کہیں تم اس کے غضب کا نشانہ نہ بن جاؤ اور میرا کہا مانو۔ معلوم ہوا کہ رسول کا ہر حکم ماننا امت کے لیے ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ وہ کتاب اللہ کی چند آیات پہنچا دے اور بس، اس کے علاوہ اس کی بات ماننا لازم نہ ہو۔