(آیت 106) اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ: ” اَخُوْهُمْ “ کے لفظ سے ان کے ساتھ نوح علیہ السلام کا نسبی تعلق واضح کیا ہے اور اس خیر خواہی کی طرف اشارہ ہے جو نوح علیہ السلام کو اس قوم کا فرد ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول بشر ہی ہوتے ہیں اور حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے، کیونکہ انسانوں کے لیے نمونہ انسان ہی بن سکتا ہے، فرشتہ یا کوئی اور نہیں، مگر اس وقت کفار نے بشر ہونے کی وجہ سے انھیں نبی نہیں مانا اور اب کئی جاہل ایسے ہیں جو نبی مانتے ہیں مگر نبی ہونے کی وجہ سے بشر نہیں مانتے۔ عقیدہ دونوں کا ایک ہے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا۔ قرآن نے جا بجا اس عقیدے کی تردید کی ہے۔
دوسرے مقامات پر مذکور نوح علیہ السلام کے خطاب کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے: « يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ »[ المؤمنون: ۲۳ ]”اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی بھی معبود نہیں، تو کیا تم ڈرتے نہیں؟“ اور فرمایا: « اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَطِيْعُوْنِ »[ نوح: ۳ ]”کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔“ دعوت کے آغاز میں خوف دلانے میں حکمت یہ ہے کہ جب تک کسی شخص یا قوم کو اس کے غلط رویے کے برے انجام کا خطرہ محسوس نہ کرایا جائے وہ صحیح بات پر توجہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے قریبی رشتہ داروں کو جمع کرکے صفا پر کھڑے ہو کر یہی کہا تھا: [ فَإِنِّيْ نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ ][ بخاري، التفسیر، باب: «و أنذر عشیرتک الأقربین…» : ۴۷۷۰ ]”میں تمھیں ایک بہت سخت عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔“