(آیت96تا98) ➊ قَالُوْا وَ هُمْ فِيْهَا يَخْتَصِمُوْنَ …: ” اِنْ كُنَّا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ “ اصل میں”إِنَّا كُنَّا لَفِيْ ضَلاَلٍ مُّبِيْنٍ“ ہے۔ دلیل اس کی” فِيْ“ پر آنے والا لام ہے۔ یعنی وہ جہنم میں اپنے معبودوں سے جھگڑتے ہوئے ان سے کہیں گے کہ اللہ کی قسم! ہم یقینا کھلی گمراہی میں تھے، جب ہم تمھیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے، اس کے بعض اختیارات اور صفات تمھارے لیے بھی مانتے تھے، تمھارے لیے حلال و حرام کرنے کے اختیار کا عقیدہ رکھتے تھے، تمھیں بھی عالم الغیب اور مختار کل سمجھتے تھے، تمھیں بگڑی بنانے والے، فریاد کو پہنچنے والے، اولاد عطا کرنے والے اور شفا دینے والے سمجھتے تھے۔
➋ یاد رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ بولنے سے بھی منع فرمایا جن سے مخلوق کی خالق کے ساتھ کسی طرح بھی برابری ظاہر ہوتی ہو۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَا تَقُوْلُوْا مَا شَاءَ اللّٰهُ وَ شَاءَ فُلَانٌ وَلٰكِنْ قُوْلُوْا مَا شَاءَ اللّٰهُ ثُمَّ شَاءَ فُلَانٌ ][ أبوداوٗد، الأدب، باب لا یقال خبثت نفسي: ۴۹۸۰، قال الألباني صحیح ]”یہ مت کہو کہ جو اللہ نے چاہا اور فلاں نے چاہا، بلکہ یوں کہو کہ جو اللہ نے چاہا، پھر فلاں نے چاہا۔“ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: [ مَا شَاءَ اللّٰهُ وَ شِئْتَ ]”جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ جَعَلْتَ لِلّٰهِ نِدًّا ]”تم نے اللہ کا شریک بنا دیا۔“ یوں کہو: [ مَا شَاءَ اللّٰهُ وَحْدَهُ ]”جو اللہ اکیلا چاہے۔“[الأدب المفرد: 274/1، ح: ۷۸۳، وقال الألباني صحیح ]