(آیت 77) ➊ فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ: ” عَدُوٌّ “”فَعُوْلٌ“ کے وزن پر ہے، واحد، جمع، مذکر اور مؤنث سب کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے، اس لیے ” فَاِنَّهُمْ “ میں جمع کی خبر ہونے کے باوجود واحد آیا ہے۔ یعنی تم اور تمھارے قدیم ترین آبا و اجداد جن چیزوں کی عبادت کرتے رہے ہیں وہ سب چیزیں میری دشمن ہیں۔ ہاں، اگر ان میں سے کوئی ”رب العالمين“ کی بھی عبادت کرتا رہا ہے، تو صرف ”رب العالمين“ میرا دوست ہے۔
➋ یہاں ایک سوال ہے کہ بتوں کے دشمن تو ابراہیم علیہ السلام تھے، بتوں نے ان سے کیا دشمنی کرنا تھی؟ تو یہاں یہ کہنے کے بجائے کہ میں ان کا دشمن ہوں، یہ کیوں فرمایا کہ وہ میرے دشمن ہیں؟ اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ ابراہیم علیہ السلام انھیں بتانا یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو، جتنی مرضی ان سے محبت کر لو یا ان کی عبادت کر لو، قیامت کے دن وہ تمھارے دشمن بن جائیں گے، ایک اللہ عز و جل کی ذات پاک ہے کہ وہ اپنی عبادت کرنے والوں کی دوست رہے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗۤ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَ هُمْ عَنْ دُعَآىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ (5) وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَآءً وَّ كَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِيْنَ »[ الأحقاف: ۵، ۶ ]”اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا انھیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں۔ اور جب سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوں گے۔“ سورۂ بقرہ (۱۶۵، ۱۶۶) اور سورۂ مریم (۸۱، ۸۲) میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔ مگر ابراہیم علیہ السلام نے یہ کہنے کے بجائے کہ ”تمھارے معبود تمھارے دشمن ہوں گے“ یہ فرمایا کہ تمھارے یہ معبود (اگر میں ان کی عبادت کروں گا تو) میرے دشمن ہوں گے۔ اس میں انھوں نے دعوت میں حکمت اور دانائی کو محفوظ رکھا ہے کہ مخاطب سوچے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام کو اپنی فکر ہے کہ بتوں کی عبادت کی صورت میں انھیں ان کی دشمنی کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا، اسی طرح مجھے بھی اپنی فکر کرنی چاہیے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ” عَدُوٌّ “(دشمن) اسی کو نہیں کہتے جسے آپ سے دشمنی ہو، اسے بھی دشمن کہا جاتا ہے جس سے آپ کو دشمنی ہو۔ جس سے اپنی شدید دشمنی کا اظہار کرنا ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ میرا دشمن ہے اور جس سے شدید محبت کا اظہار کرنا ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ میرا دوست ہے۔ مرزا غالب نے کہا ہے:
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو
گویا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی شدید عداوت کے اظہار کے لیے انھیں اپنا دشمن اور ”رب العالمین“ کو اپنا دوست قرار دیا ہے۔
➌ ابراہیم علیہ السلام نے ان الفاظ میں بتوں سے اپنی دشمنی کا جو اظہار کیا ہے دوسری جگہ اس کا اظہار ان الفاظ میں ہوا ہے: «وَ تَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِيْنَ »[ الأنبیاء: ۵۷ ]”اور اللہ کی قسم! میں ضرور ہی تمھارے بتوں کی خفیہ تدبیر کروں گا، اس کے بعد کہ تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔“ پھر ابراہیم علیہ السلام نے اس دشمنی کا عملی مظاہرہ بھی بتوں کو توڑ کر فرمایا۔ ان الفاظ میں اس بات کا بھی اظہار ہے کہ میں تمھارے بتوں سے ہرگز نہیں ڈرتا، وہ میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، میرا ان کے ساتھ اور تمھارے ساتھ تعلق دشمنی کا ہے۔ (دیکھیے ممتحنہ: ۴۔ انعام: ۸۰، ۸۱) اللہ تعالیٰ کے دوسرے جلیل القدر پیغمبروں نے بھی کفار اور ان کے معبودوں کے متعلق صاف اعلان کیا کہ وہ ان کے خلاف جو کر سکتے ہیں انھیں ان کی کوئی پروا ہے نہ ان سے کوئی خوف۔ نوح علیہ السلام کے متعلق دیکھیے سورۂ یونس (۷۱) اور ہود علیہ السلام کے متعلق دیکھیے سورۂ ہود (۵۵، ۵۶)۔