(آیت 23) ➊ قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ: فرعون نے جب دیکھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کو خوف زدہ نہیں کر سکا اور وہ کسی صورت توحید کی دعوت سے اور بنی اسرائیل کی آزادی کے مطالبے سے باز آنے والے نہیں تو وہ مجادلے پر اتر آیا۔ عموماً مناظرے کا کامیاب اسلوب یہ سمجھا جاتا ہے کہ مدّ مقابل کو سوالات میں الجھا دیا جائے۔ تو اس کے مطابق اس نے کہا: « وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ »”اور رب العالمین کیا ہے؟“ واؤ عطف اس لیے ہے کہ اس سے پہلے وہ ایک سوال کر چکا تھا: « اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا » یہ اس پر عطف ہے۔ یہاں مفسرین عام طور پر لکھتے ہیں کہ ” مَا “ کے ساتھ کسی چیز کی حقیقت کے متعلق سوال ہوتا ہے، چونکہ مخلوق خالق کی حقیقت کا ادراک کر ہی نہیں سکتی، اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے آثار کو اس کے تعارف کے لیے پیش فرمایا۔ ابن عاشور نے فرمایا، لفظ ” مَا “ کے ساتھ سوال ہو تو ” مَا “ کے بعد والی چیز کی وہ حقیقت معلوم کرنا مقصود ہوتی ہے جس سے وہ دوسری چیزوں سے الگ ہو جائے۔ اس لیے کسی کی قوم یا قبیلہ معلوم کرنا ہو تو ” مَا “ کے ساتھ سوال ہوتا ہے، جیسا کہ فارس کے ساتھ ایک جنگ میں کسریٰ کے جرنیل کی مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے گفتگو ہوئی تو اس نے پوچھا: [ مَا أَنْتُمْ؟ ]”تم کیا ہو؟“ تو انھوں نے فرمایا: [ نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ ][ بخاري، الجزیۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ …: ۳۱۵۹ ]”ہم عرب کے کچھ لوگ ہیں۔“
➋ قبطیوں کے ہاں کئی معبودوں کی پرستش ہوتی تھی، مشرکین کا علم الاصنام سراسر باطل ہونے کی وجہ سے نہایت پُر پیچ اور ناقابل فہم ہوتا ہے۔ فرعون کی سلطنت میں کئی معبودوں کی پرستش ہوتی تھی، فرعون بھی ان کی خدائی کو مانتا تھا۔ (دیکھیے اعراف: ۱۲۷) اس کے باوجود وہ ان تمام معبودوں کا نمائندہ بن کر اپنے آپ کو رب اعلیٰ کہتا اور کہلواتا تھا، جیسا کہ فرمایا: « فَحَشَرَ فَنَادٰى (23) فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى »[ النازعات: ۲۳، ۲۴ ]”پھر اس نے اکٹھا کیا، پس پکارا۔ پس اس نے کہا میں تمھارا سب سے اونچا رب ہوں۔“ کبھی یہ کہتا: « يٰۤاَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ »[ القصص: ۳۸ ]”اے سردارو! میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانا۔“ بظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ”رب العالمین“ کو نہیں جانتا تھا، اس لیے اس نے پوچھا: « وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ » مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ”رب العالمین“ کو اچھی طرح جانتا تھا، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اسے فرمایا تھا: « لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآىِٕرَ »[ بني إسرائیل: ۱۰۲ ]”بلاشبہ یقینا تو جان چکا ہے کہ انھیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا، اس حال میں کہ واضح دلائل ہیں۔“ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اور اس کی قوم کے متعلق شہادت دی ہے، فرمایا: « وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَيْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا »[ النمل: ۱۴]”اور انھوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کر دیا، حالانکہ ان کے دل ان کا اچھی طرح یقین کر چکے تھے۔“ معلوم ہوا اس کا سوال ” وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ “ تجاہلِ عارفانہ تھا، وہ جاننے کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سورۂ طٰہٰ میں اس کا سوال یہ نقل ہوا ہے: « فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى »[ طٰہٰ: ۴۹ ]”تو تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰ!؟“