(آیت 20)قَالَ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّيْنَ: ” اَنَا مِنَ الضَّآلِّيْنَ “”میں اس وقت ضلالت والوں سے تھا۔“ لفظ ”ضلالت“ ہر جگہ گمراہی کے معنی میں نہیں ہوتا، بلکہ عربی زبان میں اسے ناواقفیت، نادانی، خطا اور بھول وغیرہ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ قبطی کے قتل کے واقعہ کو دیکھیں تو یہاں اس کا معنی نادانی، خطا یا بھول ہی ہو سکتا ہے، کیونکہ نہ ان کا ارادہ اسے قتل کرنے کا تھا اور نہ ان کے وہم و گمان میں یہ بات تھی کہ ایک گھونسے سے اس کا کام تمام ہو جائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے پہلے اس کے اس طعن کا جواب دیا جس سے وہ انھیں مجرم ثابت کرنا چاہتا تھا، کیونکہ جرم ثابت ہونے سے وہ قصاص کے مستحق ٹھہرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے دھمکی کا جواب کسی خوف کے بغیر نہایت دلیری سے دیا کہ ہاں، وہ کام میں نے کیا ہے، مگر میں نے اس وقت یہ کام جان بوجھ کر نہیں کیا، نہ میرا یہ ارادہ تھا کہ اسے قتل کروں، مجھے کیا خبر تھی کہ ایک گھونسے میں اس کا دم نکل جائے گا، کبھی ایک گھونسے سے بھی موت واقع ہوا کرتی ہے؟ مجھ سے یہ کام دانستہ نہیں خطا اور بھول سے ہوا ہے اور کیا کسی قانون میں خطا سے ہونے والے کام کو جرم قرار دیا جاتا ہے؟