(آیت 16) ➊ فَاْتِيَا فِرْعَوْنَ: موسیٰ علیہ السلام کو دو ہدف دے کر بھیجا گیا تھا، ایک فرعون کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرنا (دیکھیے نازعات: ۱۷ تا ۱۹) اور دوسرا بنی اسرائیل کو آزادی دلانا۔ (دیکھیے طٰہٰ: ۴۷)۔
➋ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: اللہ تعالیٰ نے فرعون کے سامنے جا کر گفتگو کی ابتدا اس بات سے کرنے کا حکم دیا کہ ہم ”رب العالمین کے رسول“(پیغام پہنچانے والے) ہیں، یعنی ہم جو کچھ تمھیں کہہ رہے ہیں وہ ہماری بات نہیں، بلکہ رب العالمین کا پیغام اور اس کا فرمان ہے جو ہم تمھیں پہنچا رہے ہیں۔ ”رب العالمین“ کے لفظ کے ساتھ واشگاف الفاظ میں اسے بتایا کہ وہ (فرعون) رب نہیں ہے۔ رب وہ ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے، جن میں فرعون بھی شامل ہے۔ اس میں توحید کا اعلان بھی ہے، کیونکہ ”عالمین“ کا لفظ پوری کائنات کو شامل ہے، جن میں فرعون اور قبطیوں کے تمام معبود بھی شامل ہیں، مثلاً سورج، چاند، ستارے اور گائے وغیرہ۔ گویا اس چھوٹے سے جملے میں توحید و رسالت دونوں کا پیغام موجود ہے۔