(آیت 15) ➊ قَالَ كَلَّا …: فرمایا، ہر گز ایسا نہیں ہو گا، نہ وہ تمھیں قتل کر سکیں گے، نہ کوئی ایذا پہنچا سکیں گے۔ تمھاری ہارون کو معاون نبی بنانے کی درخواست بھی قبول ہے، اس لیے تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ۔
➋ فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ: ہمت بندھانے کے لیے دو چیزیں عطا فرمائیں، پہلی عصا اور ید بیضا کے معجزے، دوسری اپنی معیت کا وعدہ۔ عام معیت تو کائنات کی ہر چیز کو حاصل ہے، یہاں معیت سے مراد معیت خاصہ ہے، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کی فوج کے آ پہنچنے پر فرمایا تھا: « كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ »[ الشعراء: ۶۲ ]”ہر گز نہیں! بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔“ اور جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی کے لیے کہا تھا: « لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا »[ التوبۃ: ۴۰ ]”غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“”سَمِعَ“”اس نے سنا“ اور ”اِسْتَمَعَ“ اس نے کان لگا کر سنا۔“” اِنَّا مَعَكُمْ “ میں ضمیر ”كُمْ“ تثنیہ کے لیے استعمال ہوئی ہے، کیونکہ دوسری جگہ فرمایا: « لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِيْ مَعَكُمَاۤ اَسْمَعُ وَ اَرٰى »[ طٰہٰ: ۴۶ ]”ڈرو نہیں، بے شک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں، میں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔“