(آیت 11،10) ➊ وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى: یہاں سے عبرت کے لیے پہلی قوموں کے چند واقعات بیان فرمائے ہیں، جن سے مقصود یہ ہے کہ آیاتِ الٰہی کو جھٹلانے اور ان کا مذاق اڑانے کا انجام ہلاکت ہے۔ گویا ان واقعات سے پچھلی آیت: «فَسَيَاْتِيْهِمْ۠ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ » کی تائید اور وضاحت مقصود ہے۔ (شوکانی) اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کو تسلی دلانا بھی مقصود ہے۔ اس کے لیے ابتدا موسیٰ علیہ السلام اور پھر ابراہیم علیہ السلام کے واقعات سے فرمائی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی بہت سی چیزوں میں مشارکت ہے، مثلاً ہجرت، جہاد اور ارضِ مقدس کو حاصل کرنے کی آرزو وغیرہ۔ موسیٰ علیہ السلام کو وہ کتاب ملی جو قرآن کے بعد انتہائی جامع کتاب ہے اور انھیں بہت سے معجزے ملے۔ قرآن میں ان کا اور ان کی قوم کا ذکر سب سے زیادہ کیا گیا ہے۔
➋ یہ واقعہ اس سے پہلے سورۂ بقرہ، اعراف اور طٰہٰ میں تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے اور آگے سورۂ قصص میں بھی آ رہا ہے۔
➌ اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ: اس قوم کا نام قبط تھا، انھیں ظالم اس لیے فرمایا کہ وہ کفر و شرک کر کے اپنی جان پر ظلم کر رہے تھے، فرعون کو ربِ اعلیٰ مان رہے تھے اور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر، ان کے بیٹوں کو قتل کر کے اور عورتوں کو باقی رکھ کر ان پر بھی ظلم کر رہے تھے۔
➍ اَلَا يَتَّقُوْنَ: فرمایا، یہ لوگ بے تحاشا ظلم و ستم کرتے ہی چلے جا رہے ہیں، کیا انھیں خوف نہیں کہ کوئی ان سے باز پرس کرنے والا بھی ہے!!