(آیت 72) ➊ وَ الَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ: اہل ایمان کی تین بنیادی صفات کے بعد اب چند مزید صفات کا ذکر ہوتا ہے، جن کے ساتھ ایمان میں کمال حاصل ہوتا ہے۔ ”شَهِدَ يَشْهَدُ“ حاضر ہونے کے معنی میں آتا ہے اور اس کا اصل مفہوم یہی ہے، جیسا کہ فرمایا: « فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ »[ البقرۃ: ۱۸۵ ]”تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے۔“ اور کسی چیز کے متعلق گواہی دینے کے لیے بھی آتا ہے، جس میں وہ حاضر رہا ہو یا جانتا ہو، جیسا کہ فرمایا: « وَ اَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ »[ الطلاق: ۲ ]”اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو۔“ اور فرمایا: « شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ »[ آل عمران: ۱۸ ]”اللہ نے گواہی دی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔“
اس آیت کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ وہ باطل کی مجلسوں میں حاضر نہیں ہوتے، جن میں مشرکین حاضر ہوتے ہیں۔ وہ لہو و لعب، گانے بجانے، غیبت یا بدکاری کی مجلسیں ہوں یا ظلم و زیادتی یا کسی بھی گناہ کی منصوبہ بندی کی مجلسیں، یا کفار کے جشنوں، ان کے کھیل تماشوں کی مجلسیں، غرض ایسی ہر مجلس میں شرکت سے وہ اجتناب کرتے ہیں۔ اس صورت میں لفظ ”الزُّوْرَ “” لَا يَشْهَدُوْنَ “ کا مفعول بہ ہو گا۔ یہی مفہوم سورۂ انعام میں بیان ہوا ہے، فرمایا: « وَ اِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْۤ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ وَ اِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ »[الأنعام: ۶۸ ]”اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہو جائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یا د آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔“ اور ”يَشْهَدُوْنَ“ کا معنی گواہی بھی ہو سکتا ہے، اس صورت میں ” لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ “ سے مراد ”لَا يَشْهَدُوْنَ بِالزُّوْرِ“ یا ”لَا يَشْهَدُوْنَ شَهَادَةَ الزُّوْرِ“ ہو گا کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلْإِشْرَاكُ بِاللّٰهِ وَ عُقُوْقُ الْوَالِدَيْنِ وَ قَتْلُ النَّفْسِ وَ شَهَادَةُ الزُّوْرِ ][ بخاري، الشھادات، باب ما قیل في شھادۃ الزور: ۲۶۵۳ ]”اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کو ستانا، کسی جان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔“ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: ”آیات کے سیاق سے زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ وہ جھوٹ اور باطل کی مجلس میں شریک نہیں ہوتے۔“
➋ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا:” كِرَامًا “ کریم کا اصل معنی وہ چیز ہے جو اپنی قسم میں سب سے عمدہ ہو، جیسا کہ فرمایا: «فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ»[ لقمان: ۱۰ ]”پھر ہم نے اس میں ہر طرح کی عمدہ قسم اگائی۔“”لغو“ کا معنی بے فائدہ اور بے کار چیز، یعنی ”كُلَّ مَا يَنْبَغِيْ أَنْ يُّلْغٰي وَ يُطْرَحُ “ کہ ہر وہ چیز جو بے کار کیے جانے اورپھینکے جانے کے لائق ہو۔ (کشاف) اس میں ہر گناہ آ جاتا ہے، یعنی رحمان کے بندے بے ہودہ مجالس میں شریک نہیں ہوتے اور اگر ایسی کسی مجلس پر ان کا گزر ہو تو الجھنے اور لڑنے کے بجائے بہت باعزت اور عمدہ ترین طریقے سے گزر جاتے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا: « وَ ذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا »[ الأنعام: ۷۰ ]”اور ان لوگوں کو چھوڑ دے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل اور دل لگی بنا لیا۔“ اور فرمایا: « وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ »[ القصص: ۵۵ ]”اور جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال۔ سلام ہے تم پر، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔“