(آیت 65) ➊ وَ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا …: مخلوق اور خالق کے ساتھ اپنا معاملہ درست کرنے کے باوجود ان میں غرور یا خود پسندی کا شائبہ تک نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق سمجھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور عفو کے طلب گار اور عذاب جہنم سے بچنے کے خواست گار رہتے ہیں۔ سورۂ مومنون کی آیت (۶۰): « وَ الَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ »(اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں) میں ان کی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے اور سورۂ ذاریات کی آیت (۱۷، ۱۸): « كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ (17) وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ»(وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے) میں مذکور ساری رات قیام کے بعد سحریوں کے وقت استغفار کا باعث بھی ان کا یہی احساس ہوتا ہے۔
➋ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا: ” غَرَامًا “”چمٹ جانے والا“ جس طرح مقروض جب تک قرض ادا نہ کرے غریم (قرض خواہ) اس کی جان نہیں چھوڑتا، جیسے شاعر نے کہا ہے:
سَتَعْلَمُ لَيْلٰي أَيَّ دَيْنٍ تَدَانَيَتْ
وَ أَيَّ غَرِيْمٍ فِي التَّقَاضِيْ غَرِيْمُهَا
”لیلیٰ جان لے گی کہ اس نے کون سا قرض اٹھا لیا ہے اور تقاضا کرنے میں اس کا قرض خواہ کیسا قرض خواہ ہے؟“
یہ جملہ عباد الرحمان کا قول بھی ہو سکتا ہے اور رب رحمان کا فرمان بھی۔