(آیت 51) ➊ وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ نَّذِيْرًا: یعنی جس طرح ہم نے بارش کو مختلف شہروں اور ملکوں میں بانٹ دیا، اگر ہم چاہتے تو اسی طرح ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے، مگر ہم نے ایسا نہیں چاہا، کیونکہ اس سے الگ الگ امتیں وجود میں آتیں، جن کا آپس میں اختلاف ہوتا، اس لیے ہم نے ساری زمین کے لیے ایک آفتاب کی طرح سب کے لیے ایک ہی ڈرانے والا مقرر فرمایا کہ سب اس کی اطاعت کریں اور ان کے انکار کی صورت میں وہ سب کے ساتھ قتال کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیامت تک کے تمام لوگوں کے لیے نذیر ہونے کا ذکر اسی سورت کے شروع میں بھی ہے: « لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا » مزید حوالہ جات کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۵۸)۔
➋ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی کمال قوت اور بے نیازی کا اظہار بھی ہے اور اس کی حکمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کمال نعمت کا بھی۔ فرمایا اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے اور جس شان کا چاہتے بھیج دیتے، کسی کی جرأت نہ تھی کہ ہمیں روک سکتا، مگر ہم نے یہ نہیں چاہا، بلکہ یہ چاہا ہے کہ یہ عزت و رفعت ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم “ کو ملے، فرمایا: « وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ »[ الم نشرح: ۴ ]”اور ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا۔“ اور فرمایا: « عَسٰۤى اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا »[ بني إسرائیل: ۷۹ ]”قریب ہے کہ تیر ارب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔“