(آیت 49) ➊ لِنُحْيِۧ بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا وَّ نُسْقِيَهٗ …: ” اَنَاسِيَّ “” أَنْسِيٌّ“ کی جمع ہے، جیسے: ”كُرْسِيٌّ“ کی جمع ”كَرَاسِيُّ“ ہے یا ”إِنْسَانٌ“ کی جمع ہے جو اصل میں ”أَنَاسِيْنُ“ تھا، جیسے: ”ظَرْبَانٌ“(بلی جیسا ایک جانور) کی جمع ”ظَرَابِيُّ“ ہے، پھر آخری نون کو یاء سے بدل دیا اور یاء کا یاء میں ادغام کر دیا۔ ”سَقٰي يَسْقِيْ“ پلانا، ”أَسْقٰي يُسْقِيْ“ پلوانا، پینے کے لیے مہیا کرنا۔
➋ اگر سمندر کا پانی اپنی اصل حالت میں کھیتی کو پلایا جائے تو کھیتی مرجھا کر تباہ ہو جائے اور اگر کوئی جان دار پی لے تو اس کی آنتوں کو کاٹ کے رکھ دے، یا کم از کم زخمی کر دے، لیکن اسی سمندر کے پانی کے بخارات جب بارش میں منتقل ہوتے ہیں تو کیا نباتات، کیا حیوان اور کیا انسان، سب کے لیے یہ پانی حیات بخش ثابت ہوتا ہے، کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور جان دار مخلوق بارش ہونے سے پہلے ہواؤں کی آمد ہی پر مسرور ہو کر جھومنے لگتی ہے۔ نباتات ہی سے جان دار مخلوق کو غذا حاصل ہوتی ہے اور اس کے پینے کے لیے اللہ تعالیٰ صاف ستھرا پانی دیتا ہے۔ جمادات کے علاوہ اس کائنات ارضی پر کوئی مخلوق ایسی نہیں جس کی زندگی کی بقا پانی کے بغیر ممکن ہو۔ (کیلانی)
➌ ان دو آیات میں بھی اللہ کی توحید، موت کے بعد زندگی کے دلائل اور اللہ کی نعمت کی یاد دہانی تینوں چیزیں موجود ہیں۔