تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 45) اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ …: سورت کی ابتدا توحید کے اثبات اور شرک کے رد کے دلائل سے ہوئی ہے، کفار کی گمراہی کے بیان کے بعد ایک بار پھر توحید کے دلائل کا بیان ہے۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ سائے کے پھیلنے اور سکڑنے کو کائنات میں تدریج کے اصول کی مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، توجہ اس بات کی طرف دلائی جا رہی ہے کہ یہی اصول قرآن کے آہستہ آہستہ نازل ہونے میں کار فرما ہے۔

➋ آیت کے شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے اپنا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ فرمایا ہے، فرمایا: «اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ » کیا تو نے اپنے رب کو نہیں دیکھا، اس نے کس طرح سائے کو پھیلا دیا۔ کیونکہ اصل مقصود سائے کی کیفیت کی طرف توجہ دلانا ہے اور آخر میں اپنا ذکر اپنی عظمت کے اظہار کے لیے جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ فرمایا ہے، فرمایا: « ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا » پھر ہم نے سورج کو اس پر دلالت کرنے والا بنایا۔

➌ سائے سے مراد روشنی اور تاریکی کے بین بین وہ درمیانی حالت ہے جو سورج نکلنے سے پہلے ہوتی ہے اور دن بھر مکانوں میں، دیواروں کی اوٹ میں اور درختوں کے نیچے رہتی ہے۔ بعض مفسرین نے سائے سے مراد رات کی ظلمت لی ہے، جسے اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے کے ساتھ بتدریج پھیلاتا ہے اور طلوع آفتاب تک بتدریج ختم کرتا ہے۔

➍ یعنی تم نے اپنے رب کی عجیب کاری گری نہیں دیکھی کہ اس نے سائے کو اس طرح بنایا کہ طلوع آفتاب تک ہر جگہ پھیلا ہوتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ سورج کو طلوع نہ ہونے دیتا تو وہی سایہ قائم رہتا، مگر اس نے اپنی قدرت سے سورج نکالا، جس سے دھوپ پھیلنا شروع ہوئی اور سایہ بتدریج ایک طرف کو سمٹنے لگا۔ اگر دھوپ نہ آتی تو سائے کو ہم سمجھ بھی نہ سکتے۔ پھر سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہر چیز کا سایہ مغرب کی طرف بہت لمبا اور پھیلا ہوا ہوتا ہے، پھر جیسے جیسے سورج بلند ہوتا ہے سایہ آہستہ آہستہ سکڑتا جاتا ہے، حتیٰ کہ دھوپ پھیلنے سے بالکل ختم ہو جاتا ہے یا تھوڑا سا رہ جاتا ہے، پھر سایہ مشرق کی طرف بڑھنا شروع ہو جاتا ہے جو آخر کار رات کی تاریکی کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ سائے کے اس پھیلنے اور سکڑنے میں انسان، حیوان حتیٰ کہ زمین پر پائی جانے والی ہر چیز کے لیے بے شمار فائدے ہیں، بلکہ ان کی زندگی ہی سائے کے اس گھٹنے بڑھنے پر موقوف ہے۔ ہمیشہ سایہ رہے تو زمین پر کوئی جان دار مخلوق بلکہ نباتات تک باقی نہ رہ سکے، کیونکہ ان سب کی زندگی سورج کی حرارت پر موقوف ہے۔ سایہ بالکل نہ رہے تب بھی زندگی محال ہے، کیونکہ ہر وقت سورج کے سامنے رہنے اور اس کی شعاعوں سے کوئی پناہ نہ ملنے کی صورت میں نہ جان دار زندہ رہ سکتے ہیں نہ نباتات، بلکہ پانی تک کا وجود باقی رہنا مشکل ہے، پھر اللہ کا فضل یہ ہے کہ دھوپ چھاؤں کا یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بدلتا ہے، اگر یہ تبدیلی یک لخت ہو تب بھی زمین کی مخلوقات کی خیر نہیں۔ دن رات، دھوپ چھاؤں اور موسموں کے تغیر و تبدل کا سارا سلسلہ تدریج کے اصول پر قائم ہے، جس سے مقصود انسان کی ضروریات بہم پہنچانا ہے۔ دن بھر کے اوقات، نمازوں کے ہوں یا کسی اور کام کے، سائے کے بڑھنے گھٹنے سے وجود میں آتے ہیں۔

وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ قصص (۷۱، ۷۲)۔

ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا: یعنی اگر دھوپ نہ ہوتی تو کچھ پتا نہ چلتا کہ سایہ کیا ہوتا ہے، کیونکہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ (قرطبی) اس کے علاوہ سورج کا سائے پر دلالت کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ سایہ دھوپ کے تابع رہتا ہے، دھوپ ہی کے اعتبار سے وہ بڑھتا گھٹتا اور پھیلتا سمٹتا ہے، گویا دھوپ اس کے لیے بمنزلہ دلیل و راہنما ہے۔ (شوکانی)



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.