(آیت 43) ➊ اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ: یہ فطری بات ہے کہ کفار کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مذاق کا نشانہ بنانا اور اپنے باطل معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سخت تکلیف دہ تھا، کیونکہ آپ کی شدید خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر تعجب دلاتے ہوئے فرمایا: ”کیا تو نے وہ شخص دیکھا جس نے اپنی خواہش ہی اپنا معبود بنا لیا؟“ ابوحیان نے فرمایا: ”وَالْمَعْنٰي أَنَّهُ لَمْ يَتَّخِذْ إِلٰهًا إِلَّا هَوَاهُ“”معنی یہ ہے کہ اس نے اپنی خواہش کے سوا کسی کو معبود بنایا ہی نہیں۔“ زمخشری نے فرمایا: ”جو شخص اپنے دین میں خواہش ہی کا حکم مانے، کوئی بھی کام کرنے یا نہ کرنے میں اسی کے پیچھے چلے تو یہ شخص اپنی خواہش کی عبادت کرنے والا اور اسے اپنا معبود بنانے والا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ شخص جو اپنی خواہش کے سوا کسی اور کو اپنا معبود ہی نہیں سمجھتا آپ اسے ہدایت کی طرف کیسے لا سکتے ہیں؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہیں، یا اسے اسلام لانے پر مجبور کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ تمھیں ہر حال میں اسلام قبول کرنا ہو گا، چاہو یا نہ چاہو، جب کہ دین میں (قبولِ اسلام کے معاملہ میں) زبردستی ہے ہی نہیں، فرمایا: « لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ »[ البقرۃ: ۲۵۶ ]”دین میں کوئی زبردستی نہیں۔“ اور فرمایا: « وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ »[قٓ: ۴۵ ]”اور تو ان پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں۔“ اور فرمایا: « لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ»[ الغاشیۃ: ۲۲ ]”تو ہر گز ان پر کوئی مسلط کیا ہوا نہیں ہے۔“(الکشاف) اور دیکھیے سورۂ جاثیہ (۲۳) اور فاطر (۸)۔
➋ کوئی شخص اگر نفس کی خواہش پر کوئی گناہ کر لے اور اپنے آپ کو اللہ کا گناہ گار سمجھے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنی خواہش کو اپنا الٰہ بنا لیا۔ ورنہ ہر گناہ شرک ہو گا اور ہر گناہ گار مشرک، جبکہ ایسا نہیں ہے، جیسا کہ فرمایا: « اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ »[ النساء: ۴۸ ]”بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے۔“ طبری نے اپنی معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا: ”مراد اس سے کافر ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور کسی دلیل کے بجائے اپنی خواہش ہی کو اپنا معبود بنا لے۔“
➌ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْهِ وَكِيْلًا: یعنی آپ اس کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں ہیں، آپ کا کام صرف دعوت ہے، جیسا کہ فرمایا: «فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَ عَلَيْنَا الْحِسَابُ »[ الرعد: ۴۰ ]”تو تیرے ذمے صرف پہنچا دینا ہے اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔“ اور دیکھیے سورۂ شوریٰ (۴۸)۔