(آیت 41) ➊ وَ اِذَا رَاَوْكَ اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ۠ اِلَّا هُزُوًا: مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا جس طرح شدت کے ساتھ انکار کرتے اور آپ کی نبوت اور قرآن پر متعدد اعتراضات کرتے رہتے تھے، اس کے ذکر کے بعد ان کی ایک خاص ایذا کا ذکر فرمایا کہ وہ جب تجھے دیکھتے ہیں تو اپنے مذاق کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔
➋ اَهٰذَا الَّذِيْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا: ” هٰذَا “ کا اشارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کے لیے ہے، یعنی کیا یہی وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ رسول ہو کیسے گیا، جب کہ یہ ہمارے جیسا بشر ہے، جیسا کہ ایک جگہ ان کا قول ہے: « اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا »[ بني إسرائیل: ۹۴ ]”کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے۔“ پھر دیکھو اگر رسالت کسی بشر کو ملنا ہی تھی تو مکہ اور طائف کے کسی سردار کو ملتی۔ یہ نہ بادشاہ نہ سرمایہ دار، اسے کیسے مل گئی! ان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا: « وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيْمٍ »[ الزخرف: ۳۱ ]”اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟“ شیخ عبد الرحمن السعدی نے فرمایا: ”ان کی یہ بات ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جو سب سے بڑھ کر جاہل اور گمراہ ہو اور سخت عناد اور دشمنی رکھتا ہو۔ اس کا مقصد اپنے باطل کی ترویج ہو۔“ دوسری جگہ فرمایا: « وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ۠ اِلَّا هُزُوًا اَهٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ »[ الأنبیاء: ۳۶ ]”اور جب تجھے وہ لوگ دیکھتے ہیں جنھوں نے کفر کیا تو تجھے مذاق ہی بناتے ہیں، کیا یہی ہے جو تمھارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے، اور وہ خود رحمان کے ذکر ہی سے منکر ہیں۔“