(آیت 28)يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ …: ” يٰوَيْلَتٰى “ اصل میں ”يَا وَيْلَتِيْ“ ہے، جس میں لفظ ”وَيْلَةٌ“ یائے متکلم کی طرف مضاف ہے، جسے الف سے بدل دیا گیا ہے، معنی ہے میری ہلاکت، میری بربادی۔ یعنی کافر اپنی ہلاکت کو پکارے گا اور ان لوگوں کا نام لے کر کہے گا جنھوں نے اسے گمراہ کیا تھا کہ کاش! میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایک کا نام لینے کے بجائے ہر شخص کے دلی دوست کے لیے ” فُلَانًا “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ کفار کی اس ندامت کا ذکر سورۂ بقرہ (۱۶۷) اور سورۂ احزاب (۶۶ تا ۶۸) میں بھی دیکھیے۔ اس سے معلوم ہوا آدمی کو خوب سوچ سمجھ کر دوست کا انتخاب کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلرَّجُلُ عَلٰی دِيْنِ خَلِيْلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُّخَالِلُ ][ أبوداوٗد، الأدب، باب من یؤمر أن یجالس: ۴۸۳۳، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ و حسنہ الألباني ]”آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے دلی دوست بنا رہا ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَثَلُ الْجَلِيْسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَ نَافِخِ الْكِيْرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُّحْذِيَكَ وَ إِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ وَ إِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيْحًا طَيِّبَةً، وَ نَافِخُ الْكِيْرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ وَ إِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيْحًا خَبِيْثَةً ][ بخاري، الذبائح و الصید، باب المسک: ۵۵۳۴، عن أبي موسٰی رضی اللہ عنہ ]”نیک اور برے ہم نشین کی مثال کستوری رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی ہے، کستوری رکھنے والا یا تو تجھے عطیہ دے دے گا، یا تو اس سے خرید لے گا، یا اس سے عمدہ خوشبو پاتا رہے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا، یا تو اس سے گندی بو پاتا رہے گا۔“