(آیت 27) ➊ وَ يَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى يَدَيْهِ: ظالم سے مراد یہاں وہ مشرک ہے جس نے ایمان قبول نہیں کیا۔ اس کا قرینہ ” يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا “ ہے، یعنی وہ حسرت و افسوس اور ندامت سے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹے گا۔
➋ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا: ” سَبِيْلًا “ پر تنوین تنکیر کے لیے ہے، کوئی راستہ، کچھ راستہ، یعنی قیامت کے دن جب ایمان والوں کو، وہ خواہ کسی بھی درجے کا ایمان رکھتے ہوں، آخر کار جنت میں داخلہ ملے گا، تو اس وقت کافر کہے گا، کاش! میں نے رسول کے ساتھ کچھ ہی راستہ اختیار کیا ہوتا، کسی بھی درجے میں رسول کی رفاقت اختیار کی ہوتی۔ دیکھیے اس کی ہم معنی آیت: « رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ »[ الحجر: ۲ ] کی تفسیر۔