تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 20) وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ …: یہ اس اعتراض کا جواب ہے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ہے اور بازاروںمیں چلتا پھرتا ہے؟ فرمایا، پہلے تمام رسول بھی کھاتے پیتے تھے اور روزی کمانے کے لیے اور ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے بازاروں میں جاتے تھے، بشر تھے فرشتے نہ تھے۔ (دیکھیے یوسف: ۱۰۹۔ انبیاء: ۷، ۸) اگر کھانے پینے اور بازاروں میں چلنے پھرنے کے باوجود تم انھیں رسول مانتے ہو، جیسا کہ تم ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کی اولاد ہونے اور ان کی ملت ہونے پر فخر کرتے ہو، نوح، موسیٰ اور عیسیٰ علیھم السلام کو پیغمبر مانتے ہو، تو اس رسول پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟

وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً اَتَصْبِرُوْنَ: یہ اس سوال کا جواب ہے کہ پیغمبر کو سونے چاندی کے خزانے اور باغات و محلات کیوں عطا نہیں کیے گئے؟ فرمایا: ہم نے تمھارے بعض کو بعض کے لیے آزمائش بنایا ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عموماً انبیاء کو دنیاوی لحاظ سے معمولی حالت میں رکھتا ہے، ورنہ اگر وہ انھیں دنیا کثرت کے ساتھ دیتا تو بہت سے لوگ مال کے لالچ میں ان کے ساتھ ہو جاتے، سچے جھوٹے مل جل جاتے اور امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا۔ عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: [ إِنَّمَا بَعَثْتُكَ لِأَبْتَلِيَكَ وَ أَبْتَلِيَ بِكَ وَ أَنْزَلْتُ عَلَيْكَ كِتَابًا لَا يَغْسِلُهُ الْمَاءُ تَقْرَأُهُ نَائِمًا وَ يَقْظَانَ ] [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا و أھلھا، باب الصفات التي یعرف بہا …: ۲۸۶۵ ] میں نے تجھے صرف اس لیے بھیجا ہے کہ تیری آزمائش کروں اور تیرے ساتھ (لوگوں کی) آزمائش کروں اور میں نے تجھ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جسے پانی نہیں دھو سکتا، تو اسے سوتے جاگتے پڑھے گا۔

الغرض! اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو ان کے مختلف حالات کی وجہ سے ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا ہے، چنانچہ رسول اور اہل ایمان منکرین کے لیے آزمائش ہیں اور منکرین کے لیے رسول اور اہل ایمان آزمائش ہیں۔ غنی فقیر کے لیے آزمائش ہیں، تندرست بیمار کے لیے آزمائش ہیں کہ وہ اپنے سے برتر کو دیکھ کر اپنی حالت پر صبر کرتے ہیں یا نہیں۔ فقیر اور بیمار غنی اور تندرست کے لیے آزمائش ہیں کہ وہ اپنے سے کم تر کو دیکھ کر شکر کرتے ہیں یا نہیں۔ حقیقت ہے کہ شکر کی بنیاد بھی صبر ہے، جو اپنی حالت پر صابر نہیں وہ کبھی شاکر نہیں ہو سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: « اَتَصْبِرُوْنَ » کیا تم صبر کرتے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ صبر کرو۔

وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا: اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مناسبت رکھتے ہیں، ایک یہ کہ تمھارا رب جو کچھ کر رہا ہے دیکھ کر ہی کر رہا ہے، اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ دوسرا یہ کہ تم جس صدق اور خلوص کے ساتھ کفار کی مخالفت برداشت کرو گے وہ اسے دیکھ رہا ہے اور وہ کبھی تمھاری محنت کی بے قدری نہیں کرے گا۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.