(آیت 4) ➊ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا …: توحید کے بیان اور شرک اور مشرکین کے ردّ کے بعد منکرینِ نبوت کے شبہات و اعتراضات ذکر فرمائے، چنانچہ پہلا اعتراض ان کا یہ بیان فرمایا کہ یہ قرآن آپ نے اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے اور کچھ لوگوں نے اس معاملہ میں آپ کی مدد کی ہے۔ اس کی کچھ تفصیل سورۂ نحل (۱۰۳) میں گزر چکی ہے۔
➋ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًا: ظلم کا معنی کسی چیز کو اس کی جگہ کے سوا رکھ دینا ہے، کیونکہ ظلم کا اصل معنی اندھیرا ہے اور اندھیرے میں آدمی چیز کو اس کی جگہ نہیں رکھ سکتا۔ ” زُوْرًا “ ایسے سخت جھوٹ کو کہتے ہیں جو بنا سنوار کر خوش نما بنا دیا گیا ہو، اس لیے اس کا معنی فریب بھی ہو سکتا ہے۔ تنوین تہویل کے لیے ہے، یعنی انھوں نے یہ جو بات کہی ہے وہ بھاری ظلم (بے انصافی) اور سخت جھوٹ ہے، اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ قرآن جیسی کتاب، جس کی فصاحت و بلاغت اور مضامین کے مقابلے سے کل کائنات عاجز ہے، اسے اپنے پاس سے تصنیف کرکے پیش کر دینا کسی انسان کے بس میں نہیں، چاہے اس کی پشت پر چند نہیں ہزاروں بلکہ اللہ کے سوا سب جمع ہو جائیں۔ افسوس اور تعجب اس پر ہے کہ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات کہہ رہے ہیں جن کی پوری زندگی ان کے سامنے گزری (دیکھیے یونس: ۱۶) اور جن کے بارے میں انھیں خوب معلوم ہے کہ آپ نے نہ کبھی پڑھنا لکھنا سیکھا اور نہ کسی عالم کی شاگردی کی (دیکھیے عنکبوت: ۴۸) پھر یہ قرآن آپ کی تصنیف کیسے ہو سکتا ہے؟