(آیت 2) ➊ الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفات بیان فرمائی ہیں جو اس کی توحید کی دلیل ہیں۔ پہلی یہ کہ آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کی ہے، کسی اور کی نہیں۔ ان دونوں کو چلانے والا وہی ہے، دوسرے سب اپنے وجود اور اپنی بقا میں اسی کے محتاج ہیں۔
➋ وَ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا: یہ دوسری صفت ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تفسیر۔ اس میں یہود و نصاریٰ کا ردّ ہے اور ان جھوٹے مسلمانوں کا بھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنھم کو، یا کسی اور کو اللہ کے نور کا ٹکڑا مانتے ہیں۔
➌ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ: یہ تیسری صفت ہے۔ ” لَمْ يَكُنْ “ میں نفی کا استمرار ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”اور نہ کبھی بادشاہی میں کوئی اس کا شریک رہا ہے۔“ اس میں ہر قسم کے مشرکین کا ردّ ہے، جیسے بت پرست، قبر پرست، دو خدا ماننے والے اور شرک خفی کا ارتکاب کرنے والے وغیرہ۔
➍ وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا: یہ چوتھی صفت ہے کہ ہر چیز اسی نے پیدا کی، پھر اس کے لیے ایک خاص اندازہ مقرر فرما دیا، جس کی بدولت اس سے وہی افعال و اثرات صادر ہوتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے اور اسے وہی صورت، جسامت اور صلاحیتیں عطا کیں جو اس کی ضرورت کے مطابق ہیں، مثلاً انسان کو فہم و ادراک، غور و فکر، صنعت و حرفت اور مفید کام بجا لانے کی صلاحیت بخشی، اسی طرح ہر حیوان اور پودے اور جماد کو اس مصلحت کے مطابق بنایا جو اس سے مطلوب تھی۔ جب اللہ کے سوا کسی نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا تو کسی اور کی عبادت کیوں؟ دیکھیے سورۂ انعام (۱۰۲)، رعد (۱۶)، فاطر (۳)، زمر (۶۲)، مؤمن (۶۲)، حج (۷۳)، نحل (۲۰) اور اعراف (۱۹۱)۔