(آیت 62) ➊ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ …: اس سے پہلے گھروں میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کرنے کا حکم دیا تھا، اب نکلتے وقت اجازت طلب کرنے کا حکم دیا، خصوصاً جب کسی اہم کام کے لیے اکٹھا کیا گیا ہو، مثلاً کسی کام کے بارے میں مشورہ ہو، یا جہاد کے لیے جمع کیا گیا ہو، یا نصیحت کے لیے جمع کیا گیا ہو، یا جیسا کہ خندق کھودنے کے لیے مسلمان اکٹھے ہوئے تھے، ایسے موقعوں پر منافقین جان بچانے کے لیے بلااجازت نکل جاتے تھے، جیسا کہ اس کے بعد والی آیت میں فرمایا: « قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا »[ النور: ۶۳ ]”بے شک اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک جاتے ہیں۔“ اور دوسری جگہ فرمایا: « وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ هَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ »[ التوبۃ: ۱۲۷ ]”اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان کا بعض بعض کی طرف دیکھتا ہے کہ کیا تمھیں کوئی دیکھ رہا ہے؟ پھر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں، اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو نہیں سمجھتے۔“ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہاں منافقین کی صریح الفاظ میں مذمت کے بجائے اجازت لے کر جانے والے مسلمانوں کی تعریف کرکے فرمایا کہ مومن صرف یہ ہیں اور یہ بات اسی آیت میں دو دفعہ بیان فرمائی، ایک ” اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا … “ اور دوسری ” اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ “ اس سے ظاہر ہے کہ ایسے موقع پر اجازت کے بغیر کھسک جانے والوں میں کامل ایمان نہیں، یا وہ ایمان سے بالکل ہی فارغ ہیں۔ مگر یہ بات صراحت کے بجائے کنائے سے بیان فرمائی، گویا منافقین اس قابل نہیں کہ ان کا نام مذمت کے لیے بھی لیا جائے۔
➋ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ: اس سے معلوم ہوا کہ اجازت بلاوجہ نہیں بلکہ اپنے کسی اہم کام کے لیے مانگنی چاہیے اور یہ بھی کہ امیر کو اختیار ہے کہ جسے چاہے اجازت دے اور جسے چاہے نہ دے، کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کہ مجلس کی اہمیت کے پیش نظر کسے اجازت دینے کی گنجائش ہے۔
➌ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ: اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عذر کی بنا پر اگرچہ اجازت لے کر جانا جائز ہے مگر پھر بھی اچھا نہیں ہے، کیونکہ یہ دنیا کے کام کو دین پر مقدم رکھنا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (وحیدی)
➍ یہ آیت امت کی مصلحت کے لیے جماعتی نظم کی بنیاد ہے، کیونکہ سنت یہ ہے کہ ہر اجتماع کے لیے (چھوٹا ہو یا بڑا) ایک امیر ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ فِيْ سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوْا أَحَدَهُمْ ][ أبوداوٗد، الجہاد، باب في القوم یسافرون…: ۲۶۰۹، قال الألباني حسن صحیح ]”جب سفر میں تین(۳) آدمی ہوں تو وہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں۔“ یہ امیر ان مسلمانوں کے لیے ولی الامر کا قائم مقام ہو گا اور اس کی حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کی ہو گی، اس لیے اس کے اجتماع سے اس کی اجازت کے بغیر جانا جائز نہیں، کیونکہ اگر ہر شخص کو اپنی مرضی سے کھسک جانے کی اجازت ہے تو کوئی اجتماع بکھرنے سے نہیں بچے گا۔ اسی طرح جب امیر کسی دینی، سیاسی یا جہادی ضرورت کے لیے مجلس بلائے تو طے شدہ مقام اور وقت سے اجازت یا صحیح عذر کے بغیر پیچھے رہنا جائز نہیں۔ (ابن عاشور)