(آیت 61) ➊ لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ …: بعض مفسرین نے فرمایا، اس آیت کے دو حصے ہیں، ایک شروع سے ” وَ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ “ تک اور دوسرا ” وَ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ “ سے آخر تک۔ پہلے حصے کا تعلق جہاد سے ہے کہ اندھے، لنگڑے اور بیمار اگر جہاد میں نہ جا سکیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، کیونکہ وہ معذور ہیں۔ سورۂ فتح کی آیت (۱۷) میں بعینہٖ یہی الفاظ: « لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ » اسی مفہوم کے لیے آئے ہیں اور سورۂ توبہ کی آیت (۹۱): « لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى » میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ عرب لوگ اندھے، لنگڑے اور مریض کے ساتھ کھانے سے کراہت محسوس کرتے تھے، اس پر فرمایا کہ ان کے ساتھ کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تم پر کوئی حرج نہیں کہ اندھے، لنگڑے یا مریض کے ساتھ مل کر کھاؤ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں، نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی حرج ہے۔
تیسری تفسیر جو اس مقام سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے، یہ ہے کہ یہاں ” لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى “ سے آیت کے آخر تک ایک ہی مسئلہ بیان ہوا ہے۔ طبری نے اپنی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: « يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ »[ النساء: ۲۹ ]”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔“ تو مسلمانوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپس میں اپنے اموال باطل طریقے سے کھانے سے منع فرمایا ہے اور کھانا ہمارے ان اموال میں سے ہے جو سب سے بہتر ہیں، اس لیے ہم میں سے کسی کو حلال نہیں کہ کسی کے ہاں کھانا کھائے، تو لوگوں نے ایک دوسرے کے ہاں کھانا چھوڑ دیا، اس پر یہ آیت اتری: « لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ … اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ »(طبری: ۲۶۴۲۶) اس تفسیر کے مطابق اندھے، لنگڑے اور بیمار کو اجازت دی گئی ہے کہ معذور ہونے کی وجہ سے ان کا لوگوں پر حق ہے کہ وہ بھوک مٹانے کے لیے ہر جگہ اور ہر گھر سے کھا سکتے ہیں، انھیں خواہ مخواہ کی عزتِ نفس کے یا حرام سے اجتناب کے خیال میں مبتلا ہو کر کسی دوسرے کے کھانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ مجاہد نے آیت زیر تفسیر کے متعلق فرمایا: ”آدمی کسی اندھے یا لنگڑے یا بیمار کو لے کر اپنے باپ یا بھائی یا بہن یا پھوپھی یا خالہ کے گھر (کچھ کھلانے کے لیے) لے جاتا تو وہ معذور لوگ اس میں گناہ محسوس کرتے کہ یہ لوگ ہمیں دوسروں کے گھروں میں لے جاتے ہیں۔ اس پر یہ آیت ان کے لیے رخصت بیان کرنے کے لیے اتری۔“[ مسند عبد الرزاق و سندہ صحیح ]
اس کے بعد عام لوگوں کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنے گھروں سے اور ان لوگوں کے گھروں سے کھا سکتے ہیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لیے اس طرح کی شرطوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب خانہ باقاعدہ اجازت دے تو کھائیں، ورنہ خیانت ہو گی۔ آدمی اگر ان میں سے کسی کے گھر جائے اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے بیوی بچے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بلاتکلف کھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کھانا سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو مزید اجازت کی درخواست محض تکلف ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اپنے گھروں سے تو ہر شخص ہی کھاتا ہے، یہ کہنے میں کیا حکمت ہے کہ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے گھروں سے کھاؤ؟ جواب یہ ہے کہ اس میں دو حکمتیں معلوم ہوتی ہیں، ایک یہ کہ اپنے گھروں سے کھانے اور مذکورہ رشتہ داروں کے گھروں سے کھانے میں کوئی فرق نہیں، جس طرح اپنے گھروں سے کھا سکتے ہو ایسے ہی ان لوگوں کے گھروں سے بھی کھا سکتے ہو۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ ”اپنے گھروں“ کے لفظ میں اپنے گھر کے علاوہ اپنی اولاد کا گھر بھی شامل ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ آیت میں کھانے کی اجازت کے سلسلے میں اولاد کا الگ ذکر نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: [ أَنْتَ وَ مَالُكَ لِأَبِيْكَ ][ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: 63/6، ح: ۲۵۶۴۔ أبو داوٗد: ۳۵۳۰ ]”تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لیے ہے۔“
➋ آباء میں باپ دادا اور نانا اوپر تک شامل ہیں، اسی طرح امہات میں دادی اور نانی اوپر تک اور اخوان، اخوات، اعمام، عمات، اخوال اور خالات میں حقیقی، عینی اور علاتی بھائی بہنیں، چچا، ماموں اوپر تک اور ان کی اولادیں بھی شامل ہیں، سب کے گھروں سے کھانے کی اجازت ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ اس آیت سے بعض اہلِ علم نے استدلال فرمایا ہے کہ اقارب میں سے ہر ایک کا نفقہ دوسرے پر واجب ہے، اگر وہ ضرورت مند ہوں۔
➌ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ: طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر نقل فرمائی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کو اپنی جائداد (گھر یا باغ وغیرہ) کا نگران مقرر کر دے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے رخصت عطا فرمائی کہ اپنی زیر حفاظت و نگرانی گھر یا باغ سے کھانا یا پھل وغیرہ کھا لے یا دودھ پی لے۔
➍ اَوْ صَدِيْقِكُمْ: یہ ”صَدِيْقٌ“(دوست) دال کی تشدید کے بغیر ہے اور ”صَدَاقَةٌ“(دوستی) سے مشتق ہے۔ یہ وزن (فَعِيْلٌ) واحد، جمع، مذکر اور مؤنث سب کے لیے ایک ہی ہوتا ہے۔ ”صِدِّيْقٌ“ دال کی تشدید کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے بہت سچا یا بہت تصدیق کرنے والا۔ ”صَدِيْقِكُمْ “ سے مراد وہ بے تکلف دوست ہیں جن کی عدم موجودگی میں اگر ان کے گھر سے کوئی چیز کھائی جائے تو وہ ناراض ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں۔
➎ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ اس آیت میں جن لوگوں کے گھروں سے کھانے کی اجازت دی گئی ہے ان کی طرف سے بھی اجازت ہونی چاہیے، وہ اجازت خواہ عام ہو یا خاص، اگر وہ ناگواری محسوس کریں تو ان کے گھروں سے کھانا درست نہیں، حتیٰ کہ کسی بھائی کی لاٹھی اٹھانا بھی اس کی دلی خوشی کے بغیر جائز نہیں۔ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: [ لَا يَأْخُذَنَّ أَحَدُكُمْ مَتَاعَ أَخِيْهِ لَاعِبًا وَلَا جَادًّا وَ مَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِيْهِ فَلْيَرُدَّهَا ][ أبوداوٗد، الأدب، باب من یأخذ الشيء من مزاح: ۵۰۰۳، قال الألباني حسن ]”تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کا سامان نہ لے، نہ ہنسی مذاق کرتے ہوئے اور نہ سنجیدگی سے اور جس نے اپنے بھائی کی لاٹھی لی ہو وہ اسے واپس کرے۔“ اور بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان گھروں سے کھانے کی اجازت دے دی تو کھانے کے لیے گھر والوں سے اجازت لینا ضروری نہیں، اس میں نہ کھانے والوں کو حجاب کرنا چاہیے، نہ اہلِ خانہ کو دریغ کرنا چاہیے۔
➏ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْتَاتًا: کھانے کے متعلق جاہلیت میں دو طرح کا غلو پایا جاتا تھا، کچھ لوگ تو وہ تھے جو اکیلے اکیلے کھانا کھاتے تھے اور کسی دوسرے کے ساتھ مل کر کھانے سے نفرت کرتے تھے، جیسا کہ ہندوؤں کا طریقہ ہے، یا جس طرح اب بھی کفار سے متاثر بعض لوگ جراثیم کے ذریعے سے بیماری لگ جانے کے خوف سے کسی دوسرے کے ساتھ مل کر کھانا نہیں کھاتے اور کچھ لوگ وہ تھے جو اکیلا کھانے کو بخل اور کمینگی سمجھتے تھے اور جب تک کوئی دوسرا ساتھی نہ ملتا کھانا نہیں کھاتے تھے، حتیٰ کہ بعض اوقات فاقہ کر جاتے، تو اللہ تعالیٰ نے دونوں پابندیاں ختم کرکے عام اجازت دے دی کہ الگ الگ کھاؤ یا اکٹھے مل کر کھاؤ، دونوں صورتوں میں تم پر گناہ نہیں۔
اگرچہ الگ الگ کھانے کی اجازت ہے مگر مل کر کھانا افضل ہے اور اس میں برکت ہوتی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ طَعَامُ الْاِثْنَيْنِ كَافِي الثَّلَاثَةِ وَ طَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافِي الْأَرْبَعَةِ ][ بخاري، الأطعمۃ، باب طعام الواحد یکفي الاثنین: ۵۳۹۲ ]”دو آدمیوں کا کھانا تین کو کافی ہوتا ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار کو کافی ہوتا ہے۔“ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الْاِثْنَيْنِ وَطَعَامُ الْاِثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ ][ مسلم، الأشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ في الطعام القلیل…: ۲۰۵۹ ]”ایک آدمی کا کھانا دو کو کافی ہو جاتا ہے اور دو کا کھانا چار کو اور چار کا آٹھ کو کافی ہو جاتا ہے۔“
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ الْأَشْعَرِيِّيْنَ، إِذَا أَرْمَلُوْا فِي الْغَزْوِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِيْنَةِ، جَمَعُوْا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِيْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوْهُ بَيْنَهُمْ فِيْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّيْ وَ أَنَا مِنْهُمْ ][ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل الأشعریین رضي اللہ عنھم: ۲۵۰۰ ]”اشعری لوگ جب لڑائی میں (کھانے کے حوالے سے) محتاج ہو جاتے ہیں، یا مدینہ میں ان کے بال بچوں کا کھانا کم ہو جاتا ہے، تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے وہ اسے ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے ہیں، پھر آپس میں برابر بانٹ لیتے ہیں۔ یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔“
➐ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ …: اس میں گھروں میں داخلے کا ادب بیان فرمایا کہ داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کہے۔ ” عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ “ سے مراد اپنے لوگوں کو سلام کہنا ہے، کیونکہ وہ سب ایک جان کی مانند ہیں۔ اگر گھر میں کوئی بھی نہ ہو تو پھر بھی سلام کہے۔ تشہد کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو اس وقت سلام اس طرح کہنا چاہیے ”اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلٰي عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ“ امام بخاری رحمہ اللہ نے ”الأدب المفرد“(۱۰۵۵) میں حسن سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے: ”جب تو کسی گھر میں جائے، جس میں کوئی نہ ہو تو یوں کہہ ”اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلٰي عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ۔“ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے اس آیت کا نہایت عمدہ خلاصہ بیان فرمایا ہے، لکھتے ہیں: ”یعنی اپنایت کے علاقوں میں کھانے کی چیز کو ہر وقت پوچھنا ضروری نہیں، نہ کھانے والا حجاب کرے، نہ گھر والا دریغ کرے، مگر عورت کا گھر اس کے خاوند کا ہو تو اس کی مرضی چاہیے، اور مل کر کھاؤ یا جدا، یعنی اس کا تکرار دل میں نہ رکھیے کہ کس نے کم کھایا کس نے زیادہ، سب نے مل کر پکایا، سب نے مل کر کھایا، اور اگر ایک شخص کی مرضی نہ ہو پھر کسی کی چیز کھانی ہر گز درست نہیں۔ اور سلام کی تاکید فرمائی آپس کی ملاقات میں، اس سے بہتر دعا نہیں، جو لوگ اس کو چھوڑ کر اور لفظ ٹھہراتے ہیں اللہ کی تجویز سے ان کی تجویز بہتر نہیں۔“
➑ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ: یہاں آیات کو کھول کر بیان کرنے کی بات تیسری دفعہ آ رہی ہے، یعنی آیات کو اس طرح کھول کر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تم غور و فکر کرو اور ان آیات میں ذکر کردہ احکام کو سمجھو۔