(آیت 55) ➊ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ …: منافقین کی تمام تر زیادتیوں کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے صَرفِ نظر فرماتے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو اور پناہ دینے والوں کو قتل کرتے ہیں۔ اب ایک طرف پورے عرب کے کفار کی دشمنی تھی، دوسری طرف اسلام کے دعوے دار منافقین کی سازشیں تھیں، نتیجتاً مسلمان سخت پریشان اور خوف زدہ رہتے تھے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے منافقین کا طرزِ عمل بیان کرنے اور انھیں نصیحت کرنے کے بعد مخلص مومنوں کو کئی بشارتیں دیں۔ اُبیَ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی مدینہ میں آئے اور انصار نے انھیں جگہ دی تو سارا عرب ایک کمان کے ساتھ ان پر حملہ آور ہو گیا، اس لیے مسلمان رات اسلحہ کے ساتھ گزارتے اور دن بھی اسی حال میں گزارتے، حتیٰ کہ وہ یہ کہنے لگ گئے: ”کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہم اس وقت تک زندہ رہیں گے جب ہماری راتیں امن و اطمینان سے گزریں گی، ہمیں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہو گا۔“ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: « وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ»[ النور: ۵۵ ][مستدرک حاکم: 401/2، ح: ۳۵۱۲، قال الحاکم صحیح الإسناد وقال الذھبي صحیح ] اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ” وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ “ کا معنی ہے، جو اس کے بعد نعمت کی ناشکری کرے گا۔ مسلمانوں کی اس خوف کی حالت کا نقشہ سورۂ انفال (۲۶) میں بہترین صورت میں کھینچا گیا ہے۔
➋ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ …: یعنی تم کھلے اور چھپے دشمن کفار و منافقین کی دشمنی سے پریشان نہ ہو، تم میں سے مخلص مومن جو اعمالِ صالحہ سے آراستہ ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ انھیں عرب و عجم کے کفار و مشرکین کی زمین کا وارث بنائے گا، وہ اس کے جانشین اور حکمران ہوں گے، جیسا کہ اس نے اس سے پہلے کفار و مشرکین کے بعد بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کو جزیرۂ عرب، مصر اور شام کی حکومت بخشی۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے کیا ہوا یہ وعدہ بہت تھوڑے عرصے میں پورا فرما دیا، ہجرت کے بعد دس سال کے اندر، جب کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ، خیبر، بحرین، یمن اور پورے جزیرۂ عرب پر فتح عطا فرما دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجر کے مجوسیوں اور شام کے کئی علاقوں سے جزیہ وصول کرنے لگے، روم کے بادشاہ ہرقل، مصر کے بادشاہ مقوقس اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آپ کی خدمت میں ہدیے ارسال کیے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو خلفائے اسلام نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چل کر انھوں نے مشرق و مغرب کا بہت سا حصہ فتح کر لیا۔ اس وقت کے سب سے مضبوط حکمران کسریٰ کے تخت پر قبضہ کر لیا اور قیصر کو اس کے مملوکہ علاقوں شام وغیرہ سے ایسا نکالا کہ اسے قسطنطنیہ میں پناہ لینا پڑی۔ مشرق میں چین اور مغرب میں افریقہ تک اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ مسلمان ان کی گردنوں اور ان کے خزانوں کے مالک بن گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی: [ إِنَّ اللّٰهَ زَوٰی لِيَ الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَ مَغَارِبَهَا، وَ إِنَّ أُمَّتِيْ سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِيْ مِنْهَا، وَ أُعْطِيْتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ ][ مسلم، الفتن، باب ھلاک ھذہ الأمۃ بعضہم ببعض: ۲۸۸۹ ]”اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین لپیٹ دی تو میں نے اس کے تمام مشرق اور مغرب دیکھ لیے اور میری امت کی سلطنت اس کے ان مقامات تک پہنچے گی جو مجھے لپیٹ کر دکھائے گئے اور مجھے سرخ اور سفید دو خزانے عطا کیے گئے۔“
➌ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ: یہ دوسرا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے ان کے اس دین کو اقتدار بخشے گا جو اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے، یعنی مسلمانوں کو ایسا اقتدار ملے گا جس میں کسی اور آئین و قانون کا نہیں بلکہ اللہ کے دین اسلام کا مکمل غلبہ ہو گا، اس میں اللہ کی بات سب سے اونچی اور اس کا بول سب سے بالا ہو گا۔ دین کا یہ اقتدار پوری دنیا پر ہو گا۔ تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: [ لَيَبْلُغَنَّ هٰذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَلاَ يَتْرُكُ اللّٰهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللّٰهُ هٰذَا الدِّيْنَ بِعِزِّ عَزِيْزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِيْلٍ، عِزًّا يَعِزُّ اللّٰهُ بِهِ الْإِسْلَامَ، وَ ذُلًّا يُذِلُّ اللّٰهُ بِهِ الْكُفْرَ ][ مسند أحمد: 103/4، ح: ۱۶۹۵۹، قال محقق المسند إسنادہ صحیح علی شرط مسلم ]”یہ کام یعنی دین اسلام وہاں تک پہنچے گا جہاں رات اور دن پہنچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کوئی اینٹوں کا بنا ہوا مکان چھوڑے گا اور نہ ریشم کا بنا ہوا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں اس دین کو داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت دے کر اور ذلیل کو ذلت دے کر۔ عزت ایسی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اسلام کو عزت بخشے گا اور ذلت ایسی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کفر کو ذلیل کرے گا۔“ اس پیش گوئی کا اکثر حصہ خلفائے راشدین، خلفائے بنی امیہ اور عثمانی خلفاء کے ہاتھوں پورا ہوا اور جو رہ گیا ہے وہ بھی پورا ہو کر رہے گا، مسلمانوں میں دین کی طرف رجوع اور جذبہ جہاد کی بیداری آنے والی صبح روشن کی نوید ہیں۔
➍ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا: یہ تیسرا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو خوف کی حالت بدل کر امن عطا فرمائے گا۔ جہاد کی بدولت کفار یا تو اسلام قبول کرکے اس کے محافظ بن جائیں گے، یا محکوم ہو کر جزیہ دیں گے۔ اللہ کے احکام پر عمل کی بدولت خوش حالی کا دور دورہ ہو گا اور حدود اللہ کے نفاذ کی برکت سے اسلام کے زیر نگیں تمام علاقے امن کی نعمت سے فیض یاب ہوں گے۔ عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ”میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا جب آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے آپ سے فاقے کی شکایت کی، پھر ایک اور آیا اور اس نے ڈاکے اور راہ زنی کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا: ”عدی! تم نے حیرہ (شہر) دیکھا ہے؟“ میں نے کہا: ”میں نے اسے نہیں دیکھا، لیکن میں نے اس کے متعلق سنا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمھاری زندگی لمبی ہوئی تو تم اونٹنی پر سوار ایک عورت کو دیکھو گے، وہ حیرہ سے سفر کرے گی، حتیٰ کہ کعبہ کا طواف کرے گی، اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہیں ہو گا۔“ میں نے دل ہی دل میں کہا، تو بنو طے کے وہ بدمعاش کہاں جائیں گے جنھوں نے شہروں میں آگ لگا رکھی ہے؟ (آپ نے مزید فرمایا:)”اور اگر تمھاری زندگی لمبی ہوئی تو تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔“ میں نے کہا: ”کسریٰ بن ہرمز کے خزانے؟“ آپ نے فرمایا: ”ہاں، کسریٰ بن ہرمز کے خزانے، اور اگر تمھاری زندگی لمبی ہوئی تو تم آدمی کو دیکھو گے، وہ سونے یا چاندی سے اپنی لپ بھر کر اس شخص کی تلاش میں نکلے گا جو اس سے اسے قبول کرے، مگر اسے کوئی شخص نہیں ملے گا جو اس سے قبول کرے…۔“ عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”پھر میں نے اونٹنی پر سوار ایک عورت کو دیکھا جو حیرہ سے سفر شروع کرتی تھی، حتیٰ کہ کعبہ کا طواف کرتی تھی اور میں ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے اور اگر تمھاری زندگی لمبی ہوئی تو تم وہ بھی دیکھ لو گے جو نبی ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی سونے چاندی سے لپ بھر کر صدقہ نکالے گا۔“[ بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام: ۳۵۹۵ ]
➎ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا: یعنی وہ لوگ جن کے ساتھ خلافتِ ارضی، دین کے غلبے اور خوف کے بعد امن عطا کرنے کا وعدہ ہے، وہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے، صرف اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں میں ان اوصاف میں سے کسی وصف کی کمی ہو گی یا سرے سے ان سے عاری ہوں گے انھیں حکومت مل بھی جائے تو دین کے غلبے اور امن کی نعمت میسر نہ ہو گی۔
➏ یہ آیت خلفائے راشدین کی خلافت کے برحق ہونے کی بہت بڑی اور واضح دلیل ہے، کیونکہ اس آیت میں اگرچہ خلافت، تمکینِ دین اور خوف کے بعد امن کا وعدہ ان تمام لوگوں سے ہے جو ایمان اور عمل صالح پر کاربند ہوں، خواہ کسی زمانے میں ہوں، مگر اس کے سب سے پہلے مخاطب چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے اور اللہ تعالیٰ نے انھی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: « وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ » کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا جو ”تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔“ اس لیے اس آیت کے سب سے پہلے مصداق بھی وہی ہیں اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنھم کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں خلافت بخشی، ان کے زمانے میں دین غالب ہوا، اللہ کی حدود قائم ہوئیں، مسلمانوں کو امن میسر رہا اور تمام دنیا کے کافر مرعوب و مقہور رہے۔ ان کے بعد بھی جن خلفاء نے جہاد جاری رکھا، اللہ کی حدود پر عمل کیا اور کسی بھی قسم کے شرک سے آلودہ نہیں ہوئے، وہ بھی اس کے مصداق ہیں اور ان کے زمانے میں بھی دین غالب رہا اور مسلمانوں کو امن کی نعمت میسر رہی۔ آئندہ جو لوگ ان اوصاف سے آراستہ ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھی یہ وعدہ پورا فرمائے گا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ خلافت صرف تیس (۳۰) برس قائم رہی ان کی بات اس حد تک تو درست ہے کہ اعلیٰ درجے کے اوصاف والے لوگ یہی خلفاء تھے، کیونکہ وہ براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے اور انھیں ایمان میں سبقت اور ہجرت کا شرف بھی حاصل تھا، ان کے بعد والوں کو یہ سارے فضائل حاصل نہ تھے، اس لیے ان کی خلافت اس بلند ترین درجے کی نہ تھی، مگر یہ بات غلط ہے کہ اس کے بعد امتِ مسلمہ اللہ کے اس وعدے سے محروم ہو گئی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تیس (۳۰) سالوں کے بعد بھی ایسے خلفاء کی پیش گوئی فرمائی ہے جن کے زمانے میں دین غالب ہو گا۔ چنانچہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، میرے ساتھ میرے والد بھی تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: [ لَا يَزَالُ هٰذَا الدِّيْنُ عَزِيْزًا مَنِيْعًا إِلَي اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيْفَةً ]”یہ دین بارہ خلیفوں تک خوب غالب اور محفوظ رہے گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات کی جو لوگوں نے مجھے سننے نہیں دی، میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ تو انھوں نے بتایا: [كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ ]”وہ سب قریش سے ہوں گے۔“[ مسلم، الإمارۃ، باب الناس تبع لقریش: 1821/9 ] ابو داؤد کی روایت (۴۲۷۹) میں یہ الفاظ بھی ہیں: [ كُلُّهُمْ تَجْتَمِعُ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ ]”ان سب پر امت مجتمع ہو گی۔“ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ان الفاظ کو ضعیف کہا ہے۔
ان بارہ خلفاء سے مسلسل خلفاء مراد ہیں، یا درمیان میں کچھ وقفے سے آنے والے خلفاء مراد ہیں، یہ بات اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ میں نااہل لوگوں کے بعد پھر نبوی طریقے پر خلافت قائم ہونے کی پیش گوئی فرمائی ہے، حتیٰ کہ آخر زمانے میں مہدی خلیفہ راشد ہوں گے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ تَكُوْنُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَّرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةً عَلٰی مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَكُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ يَّرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكًا عَاضًّا فَيَكُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ يَّكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَّرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَّرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةً عَلٰی مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، ثُمَّ سَكَتَ][مسند أحمد: 273/4، ح: ۱۸۴۳۶، مسند احمد کے محقق اور شیخ البانی نے صحیحہ (۵) میں اسے حسن کہا ہے]”تم میں نبوت رہے گی جب تک اللہ نے چاہا کہ رہے، پھر جب وہ اسے اٹھانا چاہے گا اٹھا لے گا، پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے، پھر اللہ اسے اٹھا لے گا جب چاہے گا کہ اسے اٹھا لے پھر ”ملک عاض“(دانتوں سے کاٹنے والی بادشاہی) ہو گی اور جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے، وہ رہے گی، پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اٹھانا چاہے گا، تو اٹھا لے گا، پھر جبر والی بادشاہی ہو گی اور جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے، وہ رہے گی، پھر جب وہ چاہے گا کہ اسے اٹھائے تو اٹھا لے گا، پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔“
اس آیت اور ان احادیث کی روشنی میں مسلمانوں کو ہمیشہ پُر امید رہنا چاہیے کہ جب بھی مسلمان ایمان اور عمل صالح پر کاربند ہو گئے، اللہ کے ساتھ شرک سے تائب ہو گئے، اپنی روزمرہ کی زندگی، اپنی معیشت، اپنی سیاست، غرض ہر چیز میں غیر اللہ کے حکم سے مکمل منہ موڑ کر ایک اللہ کے حکم پر چلنے لگے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے لگے، اللہ کے سوا ہر حاجت روا اور مشکل کشا کو چھوڑ کر ایک اللہ سے استغاثہ و استعانت کرنے لگے، بزدلی اور دنیا سے محبت کے بجائے شوقِ شہادت سے سرشار ہو کر جہاد کرنے لگے، تو اللہ تعالیٰ انھیں ضرور خلافت علی منہاج النبوۃ کی نعمت عطا فرمائے گا، کیونکہ اسے ایمان اور عمل صالح سے مزین ایسے بندے مطلوب ہیں جو ” يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا “ کی عملی تصویر ہوں، یعنی صرف اس کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ البتہ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جب تک مسلمانوں کی موجودہ حالت نہیں بدلتی کہ ان کی عدالتوں میں کفار کا قانون رائج ہے، ان کی تجارت سود پر مبنی ہے، ان کی حکومت کا طریقہ کفار سے لیا ہوا ہے، ان کے معاشرے میں ہندوؤں اور یہود و نصاریٰ کی رسوم جاری ہیں، ان کی مساجد کے اندر پختہ قبروں کی پرستش ہو رہی ہے، ایک اللہ کو حاجت روا اور مشکل کُشا ماننے کے بجائے ہر ایک نے اپنا الگ داتا و دستگیر بنا رکھا ہے، وہ ایک امت بننے کے بجائے مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالت کے بدلنے تک اس خلافت کی نعمت کا حصول ایک خوبصورت خواب کے سوا کچھ نہیں جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔
➐ کچھ لوگوں نے چار صحابہ کے سوا تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو کافر کہنا اپنے دین کا جز بنا لیا ہے کوئی ان سے پوچھے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح والوں سے خلافت عطا کرنے کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ کس طرح اور کن لوگوں کے ذریعے سے پورا ہوا؟ اگر وہ اپنے بارہ (۱۲) خود ساختہ اماموں کو حقیقی خلفاء بتائیں تو بتائیں علی اور حسن رضی اللہ عنھما کو چھوڑ کر دوسرے دس (۱۰) خلفاء و ائمہ کی حکومت زمین کے کس خطے پر تھی، ان میں سے کس نے امن کے ساتھ حکومت کی؟ ان ائمہ کی حالت تو یہ تھی کہ یہ حضرات خود بتاتے ہیں کہ ان کا بارھواں امام دشمنوں کے خوف سے ایک غار میں چھپ گیا اور آج تک نمودار نہیں ہوا۔ پھر اللہ کا وعدہ کن لوگوں کے ذریعے سے پورا ہوا؟ ان لوگوں کے باطل پر ہونے کے لیے یہ بات بھی ایک واضح اور فیصلہ کن دلیل ہے کہ اسلام کے مرکز مکہ اور مدینہ میں ان ساڑھے چودہ سو سالوںمیں حکومت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے، یا پھر ان سے محبت کرنے والے۔ آج تک اللہ تعالیٰ نے اس پاک سرزمین میں صحابہ کے دشمنوں کے ناپاک قدم جمنے نہیں دیے۔
➑ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ: فاسق کے کئی درجے ہیں، کامل فاسق وہی ہے جو ایمان ہی سے نکل جائے۔ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اس خلافت کے بعد جو لوگ کفر کریں اور کفر ہی پر مریں تو یہی لوگ پورے نافرمان ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جو کوئی خلفائے اربعہ کی خلافت (اور ان کے فضل و شرف) سے منکر ہوا ان الفاظ سے اس کا حال سمجھا گیا۔“