(آیت 50) اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا …: ”حَافَ يَحِيْفُ حَيْفًا “ ظلم کرنا، یعنی آخر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں فیصلہ لے جانے سے کیوں کتراتے ہیں؟ آیا اس لیے کہ ان کے دلوں میں کفر و نفاق کی بیماری ہے، یا اس لیے کہ انھیں پیغمبر کے سچا ہونے میں شک ہے، یا اس لیے کہ انھیں فکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ لے جائیں گے تو ہم پر ظلم کیا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ نہ تو انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں شک ہے اور نہ انھیں یہ خوف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غلط فیصلہ کرکے ان پر ظلم کریں گے (کیونکہ ایسا نہ پہلے کبھی ہوا نہ ہو گا) تو پھر بات یہی رہ جاتی ہے کہ ان کے دلوں ہی میں بیماری ہے، ظالم اور قصور وار یہ خود ہیں، یعنی جس شخص کا ان کے ذمے حق ہے اس کو دبانا چاہتے ہیں۔ (جامع البیان، فتح القدیر)
شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”دل میں روگ یہ کہ اللہ اور رسول کو سچ جانا لیکن حرص نہیں چھوڑتی کہ کہے پر چلیں، جیسے بیمار چاہتا ہے کہ چلے مگر پاؤں نہیں اٹھتے۔“(موضح) اس سے معلوم ہوا کہ جو قاضی کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اس کے سمن کو قبول کرنا واجب ہے اور اس سے کترانا اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے منہ موڑنا ہے، مگر جو قاضی کتاب و سنت سے بے خبر ہو اور اس نے کسی عالم و مجتہد کے آراء و اجتہادات کو جمع کر رکھا ہو اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو تو اس کے پاس مقدمہ لے جانا اور اس کے سمن کو قبول کرنا ضروری نہیں، اس لیے کہ اس رائے پر عمل کرنا اس مجتہد کے لیے جائز تھا جس کی طرف وہ رائے منسوب ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک اسے کتاب و سنت کا فیصلہ نہ پہنچا تھا، مگر کسی دوسرے کے لیے اس پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا اور اس کے مطابق لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرنا صحیح نہیں۔ (شوکانی)