(آیت 11) ➊ اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ: ”اَلْإِفْكُ“ کا لفظی معنی الٹا کرنا ہوتا ہے، مراد ایسا بہتان ہے جو حقیقت کے بالکل خلاف ہو۔ اس سے مراد وہ بہتان ہے جو منافقین نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا پر لگایا تھا، دو تین مخلص مسلمان بھی سادہ دلی کی وجہ سے ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اس کی تفصیل خود عائشہ رضی اللہ عنھا سے سنیے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ جب سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے، جس بیوی کے نام قرعہ نکلتا اسے آپ اپنے ساتھ لے جاتے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوہ (بنو المصطلق) میں قرعہ ڈالا جو میرے نام نکلا، تو میں آپ کے ساتھ روانہ ہو گئی۔ یہ واقعہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودے میں سوار رہتی اور جب اترتی تو ہودے سمیت اتاری جاتی۔ ہم اسی طرح سفر کرتے رہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ سے فارغ ہوئے اور سفر سے لوٹے تو ہم لوگ مدینہ کے نزدیک آ پہنچے، آپ نے ایک رات کوچ کا اعلان کیا۔ یہ اعلان سن کر میں اٹھی اور پیدل چل کر لشکر سے پار نکل گئی، جب حاجت سے فارغ ہوئی اور لشکر کی طرف آنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ ”اظفار“ کے نگینوں کا ہار (جو میرے گلے میں تھا) ٹوٹ کر گر گیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرا ہودہ اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے، انھوں نے ہودہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر لاد دیا۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ میں ہودہ میں موجود ہوں، کیونکہ اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، پُر گوشت اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں اور تھوڑا سا کھانا کھایا کرتی تھیں۔ لہٰذا ان لوگوں نے جب ہودہ اٹھایا تو انھیں اس کے ہلکے پن کا کوئی خیال نہ آیا، علاوہ ازیں میں ان دنوں ایک کم سن لڑکی تھی۔ خیر وہ ہودہ اونٹ پر لاد کر چل دیے۔ لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار مجھے مل گیا اور میں اسی ٹھکانے کی طرف چلی گئی جہاں رات کو اترے تھے، دیکھا تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا ہے اور نہ جواب دینے والا (مطلب سب جا چکے تھے)، میں نے ارادہ کیا کہ اپنے ٹھکانے پر چلی جاؤں، کیونکہ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ میں وہاں بیٹھی رہی، نیند نے غلبہ کیا اور میں سو گئی۔ لشکر کے پیچھے پیچھے (گرے پڑے سامان کی خبر رکھنے کے لیے) صفوان بن معطل السلمی الذکوانی مقرر تھے۔ وہ رات چلے اور صبح میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے اور دور سے کسی انسان کو سوتے ہوئے دیکھا، پھر میرے قریب آئے تو مجھے پہچان لیا، کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انھوں نے مجھے دیکھا تھا، جب انھوں نے مجھے پہچان کر ”إِنَّا لِلّٰهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ“ پڑھا تو میں بیدار ہو گئی اور اپنی چادر سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم! انھوں نے نہ مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے ”إِنَّا لِلّٰهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ“ کے سوا کوئی بات سنی۔ انھوں نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کے اگلے پاؤں کو پاؤں سے دبائے رکھا تو میں اس پر سوار ہو گئی۔ وہ آگے سے اونٹنی کی مہار پکڑ کر پیدل چلتے رہے، یہاں تک کہ ہم لشکر سے اس وقت جا ملے جب وہ عین دوپہر کو گرمی کی شدت کی وجہ سے پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ تو جن کی قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوئے۔ اس تہمت کا ذمہ دار عبد اللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے، وہاں پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور مہینا بھر بیمار رہی۔ لوگ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے اور مجھے خبر تک نہ ہوئی، البتہ ایک بات سے مجھے شک سا پڑتا تھا، وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مہربانی جو بیماری کی حالت میں مجھ پر ہوا کرتی تھی وہ اس بیماری میں مجھے نظر نہیں آئی۔ بس یہ تھا کہ آپ میرے پاس آتے تو سلام کہتے، پھر فرماتے: ”کیا حال ہے؟“ اور چلے جاتے، اس سے مجھے شک پڑتا، مگر مجھے کسی بات کی خبر نہ تھی۔ بیماری سے کچھ افاقہ ہوا تو میں کمزور ہو گئی، ابھی کمزور ہی تھی کہ ”مناصع“ کی طرف گئی۔ مسطح کی ماں (عاتکہ) میرے ساتھ تھی۔ ہم لوگ ہر رات کو وہاں رفع حاجت کے لیے جایا کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم اپنے گھروں کے نزدیک بیت الخلا نہیں بناتے تھے، بلکہ اگلے زمانہ کے عربوں کی طرح رفع حاجت کے لیے باہر جایا کرتے تھے۔ کیونکہ گھروں کے قریب بیت الخلا بنانے سے اس کی بدبو ہمیں تکلیف دیتی۔ خیر میں اور مسطح کی ماں جو ابو رہم بن عبد مناف کی بیٹی تھی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی اور ابوبکر صدیق کی خالہ تھی، اس کا بیٹا مسطح تھا، رفع حاجت سے فراغت کے بعد ہم دونوں گھر کو آ رہی تھیں کہ مسطح کی ماں کا پاؤں چادر میں الجھ کر پھسلا تو وہ کہنے لگی: ”مسطح ہلاک ہو۔“ میں نے اسے کہا: ”تم نے بہت بری بات کہی، کیا تم اس شخص کو کوستی ہو جو بدر میں شریک تھا؟“ وہ کہنے لگی: ”اے بھولی لڑکی! کیا تم نے وہ نہیں سنا جو اس نے کہا ہے؟“ میں نے کہا: ”اس نے کیا کہا ہے؟“ تب اس نے تہمت لگانے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں تو میری بیماری میں مزید اضافہ ہو گیا۔ جب میں گھر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے اور سلام کرکے پوچھا: ”اب کیسی ہو؟“ میں نے کہا: ”کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں والدین کے پاس جاؤں؟“ میرا ارادہ اس وقت یہ تھا کہ ان سے خبر کی تحقیق کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی۔ میں اپنے والدین کے پاس آ گئی تو میں نے اپنی ماں سے کہا: ”امی! لوگ (میرے بارے میں) کیا باتیں کر رہے ہیں؟“ اس نے کہا: ”بیٹی! اتنا رنج نہ کرو، اللہ کی قسم! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو وہ بہت کچھ کرتی رہتی ہیں۔“ میں نے کہا: ”سبحان اللہ! لوگوں نے اس کا چرچا بھی کر دیا۔“ چنانچہ میں وہ ساری رات روتی رہی، صبح ہو گئی مگر میرے آنسو تھمتے ہی نہ تھے، نہ آنکھوں میں نیند کا سرمہ تک آتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید(رضی اللہ عنھما) کو بلایا، کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اپنی اہلیہ سے علیحدگی کے متعلق مشورہ چاہتے تھے۔ چنانچہ اسامہ بن زید نے تو آپ کو اس کے مطابق مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ عائشہ ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہے اور اس کے مطابق کہا جو ان کے دل میں آپ کے گھر والوں کی محبت تھی۔ انھوں نے کہا: ”یا رسول اللہ! وہ آپ کی اہلیہ ہے اور ہم خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے۔“ علی(رضی اللہ عنہ) نے کہا: ”یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی اور عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں اور اگر آپ بریرہ سے پوچھیں تو وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک بتا دے گی۔“ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ(رضی اللہ عنھا) کو بلایا اور اس سے پوچھا: ”کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے کہ عائشہ کے متعلق تمھیں کچھ شک ہو؟“ بریرہ(رضی اللہ عنھا) کہنے لگیں: ”اللہ کی قسم، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس میں کوئی بات نہیں دیکھی جسے میں اس کا عیب سمجھوں، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ وہ نو عمر لڑکی ہے، گھر والوں کا گندھا ہوا آٹا رکھ کر سو جاتی ہے اور بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے۔“ “(اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہوئے اور اس دن عبد اللہ بن ابی کے خلاف مدد مانگی، فرمایا: [ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ! مَنْ يَعْذِرُنِيْ مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِيْ أَذَاهُ فِيْ أَهْلِ بَيْتِيْ؟ فَوَ اللّٰهِ! مَا عَلِمْتُ عَلٰی أَهْلِيْ إِلَّا خَيْرًا، وَ لَقَدْ ذَكَرُوْا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا، وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلٰی أَهْلِيْ إِلَّا مَعِيَ ]”مسلمانو! اس آدمی کے خلاف کون میری حمایت کرتا ہے جس کی تکلیف مجھے میرے گھر والوں کے متعلق پہنچی ہے، اللہ کی قسم! میں نے اپنے اہل خانہ میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور ان لوگوں نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا ہے جس میں خیر کے سوا میں نے کچھ نہیں دیکھا اور وہ میرے گھر کبھی اکیلا نہیں بلکہ میرے ساتھ ہی آتا ہے۔“ یہ سن کر سعد بن معاذ انصاری (اوس قبیلے کے سردار) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ”میں اس کے مقابل آپ کی مدد کرتا ہوں، اگر وہ اوس قبیلے سے ہے تو میں اس کی گردن اڑاتا ہوں اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج قبیلے سے ہے تو آپ جو حکم دیں گے ہم بجا لائیں گے۔“ یہ بات سن کر سعد بن عبادہ، جو خزرج قبیلے کے سردار تھے، کھڑے ہوئے، وہ اس سے پہلے نیک آدمی تھے، مگر قومی حمیّت نے انھیں بھڑ کا دیا، انھوں نے سعد بن معاذ سے کہا: ”اللہ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا، اللہ کی قسم! نہ تم اسے قتل کرو گے اور نہ ہی قتل کر سکتے ہو۔“ اتنے میں اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ جو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے چچا کے بیٹے تھے، کھڑے ہوئے اور انھوں نے سعد بن عبادہ سے کہا: ”تم جھوٹ کہہ رہے ہو، اللہ کی قسم! ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیونکہ تم منافق ہو، منافقوں کی طرف داری کرتے ہوئے، ان کی طرف سے جھگڑتے ہو۔“ اس پر اوس اور خزرج دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی منبر ہی پر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں سمجھاتے اور ٹھنڈا کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو گئے۔
عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں وہ سارا دن روتی رہی، نہ میرے آنسو تھمتے تھے نہ آنکھوں میں نیند کا سرمہ تک پڑتا تھا۔ (والد نے مجھے گھر واپس جانے کا حکم دیا اور میں گھر چلی گئی) میرے والدین صبح میرے پاس ا ٓ گئے، میں دو رات اور ایک دن سے مسلسل رو رہی تھی، اس عرصہ میں مجھے نہ نیند آئی تھی اور نہ آنسو تھمتے تھے، والدین کو گمان ہوتا تھا کہ رو رو کر میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی، میں نے اجازت دے دی تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ ہم اس حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، آپ نے سلام کہا اور بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ آپ ایک مہینا انتظار کرتے رہے، مگر وحی نہیں آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر خطبہ پڑھا، پھر فرمایا: [ أَمَّا بَعْدُ، يَا عَائِشَةُ! فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِيْ عَنْكِ كَذَا وَ كَذَا، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيْئَةً فَسَيُبَرِّئْكِ اللّٰهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللّٰهَ وَتُوبِيْ إِلَيْهِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِهِ ثُمَّ تَابَ إِلَي اللّٰهِ تَابَ اللّٰهُ عَلَيْهِ ]”اما بعد! عائشہ! مجھے تمھارے بارے میں یہ بات پہنچی ہے، اگر تو بے گناہ ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ضرور بری کر دے گا اور اگر تو کسی گناہ سے آلودہ ہوئی ہے تو اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرکے توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات ختم کی تو میرے آنسو سوکھ گئے، حتیٰ کہ مجھے ان کا ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا، میں نے اپنے والد سے کہا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا ہے اس کا جواب دیں۔“ انھوں نے کہا: ”اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں میں کیا کہوں۔“ پھر میں نے اپنی ماں سے کہا: ”آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں۔“ انھوں نے کہا: ”اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں میں کیا کہوں۔“ آخر میں خود ہی جواب دینے لگی، میں نو عمر لڑکی تھی، قرآن میں نے زیادہ نہیں پڑھا تھا، میں نے کہا: [ إِنِّيْ وَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَقَدْ سَمِعْتُمْ هٰذَا الْحَدِيْثَ حَتَّی اسْتَقَرَّ فِيْ أَنْفُسِكُمْ وَ صَدَّقْتُمْ بِهِ، فَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ: إِنِّيْ بَرِيْئَةٌ، وَاللّٰهُ يَعْلَمُ أَنّيْ بَرِيْئَةٌ، لَا تُصَدِّقُوْنَنِيْ بِذٰلِكَ، وَلَئِنِ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ أَنِّيْ مِنْهُ بَرِيْئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّيْ، وَاللّٰهِ مَا أَجِدُ لَكُمْ مَثَلًا إِلَّا قَوْلَ أَبِيْ يُوْسُفَ قَالَ: « فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ »[يوسف: ۱۸] ]”اللہ کی قسم! میں جانتی ہوں کہ آپ لوگوں نے یہ بات سنی ہے، حتیٰ کہ آپ کے دل میں جم گئی ہے اور آپ نے اسے سچا سمجھ لیا ہے، اب اگر میں آپ سے کہوں کہ میں بے گناہ ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں، تو تم مجھے اس میں سچا نہیں سمجھو گے اور اگر میں کسی بات کا اعتراف کر لوں، جب کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو آپ مجھے سچا سمجھیں گے۔ اللہ کی قسم! میں اپنی اور تمھاری مثال ایسی ہی سمجھتی ہوں جیسے یوسف کے باپ نے کہا تھا: ”سو (میرا کام) اچھا صبر ہے اور اللہ ہی ہے جس سے اس پر مدد مانگی جاتی ہے، جو تم بیان کرتے ہو۔“ پھر میں نے کروٹ بدل لی اور بستر پر لیٹ گئی۔ میں اس وقت جانتی تھی کہ میں بے گناہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میری بے گناہی کی وجہ سے مجھے بری کر دے گا، لیکن اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان تک نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل کرنے والا ہے جس کی تلاوت کی جائے گی اور میرے دل میں میری شان اس سے کہیں کم تر تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی بات فرمائے گا جس کی تلاوت کی جایا کرے گی۔ مجھے تو یہ امید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند میں خواب دیکھیں گے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ مجھے پاک قرار دے گا۔ تو اللہ کی قسم! ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے نہ تھے، نہ ہی گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ آپ پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ پر وہ سختی ہونے لگی جو اس موقع پر ہوا کرتی تھی، یہاں تک کہ آپ سے موتیوں کی طرح پسینا ٹپکنے لگا، حالانکہ وہ سردی کا دن تھا۔ ایسا اس کلام کے بوجھ کی وجہ سے ہوتا تھا جو آپ پر نازل ہوتا تھا۔ جب وہ حالت ختم ہوئی تو آپ خوش تھے اور ہنس رہے تھے۔ پھر پہلی بات جو آپ نے کہی یہ تھی: [ يَا عَائِشَةُ! أَمَّا اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَدْ بَرَّأَكِ ]”عائشہ! اللہ عز و جل نے تمھیں بری کر دیا۔“ میری والدہ نے کہا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اٹھو (اور شکریہ ادا کرو)۔“ میں نے کہا: ”اللہ کی قسم! میں آپ کی طرف نہیں اٹھوں گی اور اللہ کے سوا کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔“ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: «اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ … وَ اَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ» [ النور: ۱۱ تا ۲۰ ]
جب اللہ تعالیٰ نے میری براء ت میں یہ آیات نازل فرمائیں تو ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) نے، جو محتاجی اور قرابت کی وجہ سے مسطح پر خرچ کیا کرتے تھے، کہا: ”اللہ کی قسم! میں مسطح پر کبھی کچھ خرچ نہیں کروں گا، کیونکہ اس نے عائشہ کے متعلق ایسی باتیں کی ہیں۔“ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وَ لَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْۤا اُولِي الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِيْنَ وَ الْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ» [ النور: ۲۲ ]”اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھا لیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔“ یہ آیت سن کر ابوبکر نے کہا: ”کیوں نہیں؟ اللہ کی قسم! مجھے پسند ہے کہ اللہ مجھے بخش دے۔“ اور وہ مسطح پر جو خرچ کیا کرتے تھے دوبارہ کرنے لگے اور کہا: ”اللہ کی قسم! میں کبھی یہ معمول بند نہیں کروں گا۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس تہمت کے زمانہ میں) زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا سے میرے بارے میں پوچھا کرتے تھے کہ زینب تمھیں کیا معلوم ہے، یا تم نے کیا دیکھا ہے؟ تو وہ یہی کہتی کہ میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط رکھتی ہوں، مجھے تو اس کے اچھا ہونے کے سوا کچھ معلوم نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے زینب ہی میرا مقابلہ کرتی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کی پرہیز گاری کی وجہ سے اسے بچا لیا اور اس کی بہن حمنہ اس کی خاطر لڑنے لگی۔ تو جس طرح دوسرے تہمت لگانے والے تباہ ہوئے وہ بھی تباہ ہوئی۔“[ بخاري، التفسیر، باب: «لو لا إذ سمعتموہ ظن المؤمنون…»: ۴۷۵۰ ]
➋ اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ …: ایک ذہن کے لوگوں کے گروہ اور جماعت کو ”عُصْبَةٌ“ اور ” عِصَابَةٌ“ کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہوتے ہیں اور ” عَصَبَ يَعْصِبُ “(ض) کا معنی باندھنا اور مضبوط کرنا ہے، یعنی جو لوگ یہ عظیم بہتان اپنے پاس سے بنا کر لائے ہیں ان کا شمار مسلمانوں میں ہوتا ہے، اس لیے ان سے معاملہ کرتے وقت ان کے ساتھ غیر مسلموں والا سلوک نہ کرو، کیونکہ یہ تمھی میں سے ہیں، ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں اور بات باہمی فساد تک جا پہنچے۔ جیسا کہ تجربے سے یہ بات ثابت بھی ہو گئی ہے کہ جب آپ نے عبد اللہ بن ابی کے مقابلے میں مدد کے لیے کہا تو قریب تھا کہ لوگ لڑ پڑتے، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ٹھنڈا نہ کرتے۔ اس لیے اللہ سبحانہ نے یہ کہہ کر کہ ”جو لوگ یہ بہتان لائے ہیں تمھی میں سے ایک گروہ ہیں“ ان کا بہتان اور جھوٹ بھی واضح فرمایا اور زیادہ تعاقب سے بھی منع فرما دیا۔
➌ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ: یہ بات مخلص مسلمانوں کے اطمینان کے لیے فرمائی، جنھیں اس بہتان سے صدمہ پہنچا تھا، خصوصاً جن کا اس واقعہ سے براہ راست تعلق تھا، مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر صدیق، عائشہ، ان کی والدہ اور صفوان بن معطل رضی اللہ عنھم۔ فرمایا، تم اس واقعہ کو اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمھارے لیے کئی لحاظ سے بہتر ہے:
(1) اس واقعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، عائشہ، ان کے والدین اور صفوان بن معطل رضی اللہ عنھم کو جو رنج و غم پہنچا اور مسلسل ایک ماہ تک وہ شدید کرب میں مبتلا رہے، اس کرب پر صبر اور بہتان لگانے والوں سے درگزر کا یقینا اللہ کے ہاں بہت اجر ہے، فرمایا: «اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ» [ الزمر: ۱۰ ]”صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔“ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارے سے تمام بہتان لگانے والوں کی گردنیں تن سے جدا ہو سکتی تھیں۔ اس اجر کے علاوہ براء ت کی آیات نازل ہونے پر ان تمام حضرات کو اتنی ہی خوشی ہوئی جتنا صدمہ پہنچا تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیات اترنے پر ہنس رہے تھے، اسی طرح عائشہ، ان کے والدین، صفوان بن معطل رضی اللہ عنھم اور تمام مسلمانوں کو درجہ بدرجہ خوشی ہوئی۔
(2) ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کو اس واقعہ سے جو عزت ملی امت مسلمہ میں سے کسی کو حاصل نہ ہو سکی کہ ان کی بریت کے لیے قرآن مجید اترا، جو قیامت تک تمام دنیا میں پڑھا جاتا رہے گا اور قرآن نے ان کی جو براء ت بیان فرمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کی پاکیزہ زندگی اس کی سچی شہادت ہے کہ وہ ہر بہتان سے پاک ہیں۔ اس سے قرآن کا اعجاز بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کی کوئی پیش گوئی غلط ثابت نہ ہوئی ہے، نہ ہو گی۔
(3) اس واقعہ میں یہ بھی خیر ہے کہ بہتان لگانے والے مخلص مسلمانوں پر حد لگنے سے وہ گناہ سے پاک ہو گئے اور منافقین کا نفاق ظاہر ہو گیا، جس سے آئندہ ان کے نقصانات سے بچنا آسان ہو گیا۔
(4) اس واقعہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی نیک نفسی اور پاک طینتی بھی ثابت ہوتی ہے کہ مسلسل ایک ماہ کے پروپیگنڈے کے باوجود مخلص مسلمانوں میں سے صرف تین آدمی حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنھم اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے، باقی تمام صحابہ اس بدگمانی سے پوری طرح محفوظ رہے۔ ازواج مطہرات میں سے کسی نے عائشہ رضی اللہ عنھا کی بدنامی میں حصہ نہیں لیا، حتیٰ کہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا نے، جو عائشہ رضی اللہ عنھا کی برابر کی چوٹ تھیں، سوکن ہونے کے باوجود قسم کھا کر عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاک ہونے کی شہادت دی۔ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کا واقعہ بھی، جو آگے آ رہا ہے، صحابہ کے کریم النفس اور پاک طینت ہونے کا زبردست ثبوت ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بہتان لگانے کے باوجود مسطح سے حسن سلوک ان کی خشیتِ الٰہی اور صبر کا بہترین نمونہ ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا کا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بہتان کے باوجود حسن سلوک اور ان کی عزت افزائی کرنا ان کے عالی نفس ہونے کی دلیل ہے۔
(5) اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ آپ ایک ماہ تک مسلسل کرب میں مبتلا نہ رہتے۔ اس سے اس غلو کی جڑ کٹ گئی جس میں اس سے پہلے یہود و نصاریٰ مبتلا ہوئے اور جس میں بعض نادان مسلمان بھی مبتلا ہیں۔
(6) اس واقعہ کے نتیجہ میں زنا اور قذف کی حد نازل ہوئی اور قیامت تک کے لیے مسلمان مردوں اور عورتوں کی عصمت و عفت بہتان طرازوں سے محفوظ کر دی گئی اور مسلم معاشرے میں بے حیائی کی اشاعت کا پوری طرح سد باب کر دیا گیا۔
➍ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ: یعنی جس شخص نے اس فتنے میں جتنا حصہ لیا اسی قدر گناہ گار ہوا اور سزا کا مستحق ہوا۔ کسی نے اپنے پاس سے بہتان باندھ کر طوفان اٹھایا، کسی نے بہتان باندھنے والے کی زبانی موافقت کی، کوئی سن کر ہنس دیا، کسی نے خاموشی سے سن لیا، حالانکہ اسے انکار کرنا چاہیے تھا اور کسی نے سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ صاف جھوٹ ہے، یہ بات کہنے والوں کو اللہ نے پسند فرمایا، باقی سب کو تھوڑا بہت الزام دیا۔ ?",0,2
13748,2803,2803,1,(آیت 12) ➊ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا: بظاہر یوں کہنا چاہیے تھا کہ ”کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو تم نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا“ اس کے بجائے فرمایا: ”کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا“ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تہمت کو سچا سمجھنے والے مرد اور عورتیں دونوں تھے، اس لیے دونوں کو متنبہ کرنے کے لیے خاص طور پر ان کے مومن ہونے کا ذکر فرمایا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کسی تہمت کی وجہ سے کسی مومن کے متعلق اپنے دل میں برا گمان نہ آنے دیا جائے۔
➋ اس آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس بہتان کو سن کر اپنے دلوں میں (عائشہ رضی اللہ عنھا کے متعلق) اچھا گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ صریح بہتان ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس بہتان کو سن کر مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے بارے میں اچھا گمان کرتے۔ یعنی تم اپنے متعلق سوچتے کہ اگر تم اپنی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ اکیلے ہوتے تو کبھی یہ حرکت کرتے۔ تو تم نے یہ کیسے گمان کر لیا کہ صفوان(رضی اللہ عنہ) اپنی اور تمام مومنوں کی ماں کے ساتھ ایسا خیال بھی کرے گا، بلکہ کیا تمھارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کسی قافلے سے بچھڑی ہوئی کوئی خاتون مل جائے تو اس کے ساتھ ایسی خسیس حرکت کرو۔ یہ وہی شخص سوچ سکتا ہے جس میں ایمان نہ ہو اور انتہائی گندے ذہن کا مالک ہو، وہ دوسرے کو بھی ایسا ہی گندا سمجھے گا جیسا خود گندا ہے۔ پاک باز شخص دوسرے کے متعلق بھی پاک بازی ہی کا گمان کرے گا۔
تیسرا معنی یہ ہے کہ ” بِاَنْفُسِهِمْ “ سے مراد دوسرے مومن ہیں، کیونکہ تمام مومن ایک جان کی مانند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ »[ النساء: ۲۹ ]”اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔“ اور فرمایا: « فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ »[ النور: ۶۱ ]”اپنے آپ کو سلام کہو۔“ اور فرمایا: « وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ »[ الحجرات: ۱۱ ]”اور اپنے آپ پر عیب نہ لگاؤ۔“ مراد کسی دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کو سلام کہنا اور کسی دوسرے پر عیب لگانا ہے۔ یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے بارے میں یعنی دوسرے مومنوں کے بارے میں اچھا گمان کرتے، کیونکہ وہ اور دوسرے مومن ایک ہی ہیں۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ تَرَی الْمُؤْمِنِيْنَ فِيْ تَرَاحُمِهِمْ وَ تَوَادِّهِمْ وَ تَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكٰی عُضْوًا تَدَاعٰی لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمّٰی][بخاري، الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم: ۶۰۱۱ ]”تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم، ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور ایک دوسرے پر شفقت کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہو تو اس کی خاطر سارا جسم بخار اور بیداری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔“
➌ وَ قَالُوْا هٰذَااِفْكٌ مُّبِيْنٌ: صاف جھوٹ اور صریح بہتان اس لیے کہ جو کچھ ہوا اس میں شک کی گنجائش ہی نہ تھی، ام المومنین رضی اللہ عنھا دن کے وقت عین دوپہر کی روشنی میں صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کی سواری پر آ رہی ہیں۔ صفوان مہار پکڑے ہوئے ہیں، پورا لشکر آپ کو دیکھ رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس موجود ہیں۔ اگر (بالفرض) شک والی کوئی بات ہوتی تو وہ چھپ چھپا کر آتے، اکٹھے آنے کی جرأت نہ کرتے اور دن کے بجائے رات کو آتے، جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائی رات کو آئے تھے، فرمایا: «وَ جَآءُوْۤ اَبَاهُمْ عِشَآءً يَّبْكُوْنَ» [ یوسف: ۱۶ ]”اور وہ اپنے باپ کے پاس اندھیرا پڑے روتے ہوئے آئے۔“ اس لیے یہ بات واضح تھی کہ ام المومنین رضی اللہ عنھا پر جو الزام لگایا گیا صاف جھوٹ اور صریح بہتان ہے اور ایمان والے ہر مرد اور عورت کو یہی کہنا لازم ہے۔,0,2
13749,2804,2804,1,(آیت 13) لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ …: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان لگانے والوں کے متعلق فرمایا کہ وہ اس دعویٰ پر چار گواہ کیوں نہیں لائے، تو جب وہ اس کے گواہ نہیں لائے تو وہی اللہ کے ہاں کامل جھوٹے ہیں۔ ابن عاشور نے اس کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے: ”مطلب یہ ہے کہ جو شخص دیکھے بغیر کوئی خبر دے اسے لازم ہے کہ وہ مشاہدہ کرنے والے کا حوالہ دے اور وہ مشاہدہ کرنے والے اتنی تعداد میں ہونے ضروری ہیں کہ اس قسم کے واقعہ میں اتنی تعداد سے سچ کا یقین حاصل ہو جائے۔ (یہ تعداد زنا کے لیے کم از کم چار ہے) اب ان لوگوں نے جو اُمّ المومنین پر تہمت باندھی تو ان میں سے کسی نے بھی نہ دیکھا اور نہ اتنی تعداد میں دیکھنے والے پیش کیے جس سے کسی پر زنا کا جرم ثابت ہوتا ہے، بلکہ محض خیال اور گمان سے تہمت لگا دی، اس لیے اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ ][ بخاري، الأدب، باب: «یأیھا الذین آمنوا اجتنبوا…»: ۶۰۶۶ ]”(برے) گمان سے بچو، کیونکہ (برا) گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔“” فَاُولٰٓىِٕكَ “ کی تاکید ” هُمْ “ کے ساتھ کرنے اور خبر ” الْكٰذِبُوْنَ “ پر الف لام لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا، جس سے مراد ان کے جھوٹا ہونے میں مبالغہ ہے۔ گویا وہ اتنے کامل جھوٹے ہیں کہ ان کے مقابلے میں کوئی اور جھوٹا ہے ہی نہیں۔ ”اللہ کے ہاں جھوٹے“ سے مقصود ان کے حقیقی جھوٹا ہونے کا بیان ہے، کیونکہ اللہ کا علم کبھی خلاف واقعہ نہیں ہو سکتا۔ رہا یہ مسئلہ کہ کوئی شخص اگر چار گواہ زنا کے ثبوت کے لیے پیش نہ کر سکے تو ممکن ہے وہ سچ ہی کہہ رہا ہو، مگر شرعی فیصلہ ظاہر کے مطابق ہو گا اور اسے جھوٹا قرار دے کر اس پر قذف کی حد نافذ کی جائے گی، تو اس آیت کا یہ مطلب نہیں (اگرچہ دوسرے دلائل سے یہ بات درست ہے)۔“[ التحریر والتنویر ] ,0,2
13750,2805,2805,1,(آیت 14)وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ …: یعنی اگر دنیا میں تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا کہ اس نے تمھیں دنیا میں بے شمار نعمتیں دی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ گناہ پر فوراً مؤاخذہ کے بجائے وہ مہلت دیتا ہے اور اگر آخرت میں اس کا فضل نہ ہوتا کہ وہ توبہ قبول کرتا ہے اور گناہ بخش دیتا ہے، تو تم جس کام (بہتان) میں مشغول ہوئے تھے اس کی وجہ سے تمھیں بہت بڑا عذاب ا ٓلیتا۔,0,2
13751,2806,2806,1,(آیت 15) ➊ اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ: ” تَلَقّٰي يَتَلَقّٰي“(تفعّل) کسی سے کوئی چیز لینا، جیسے فرمایا: « فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ »[البقرۃ: ۳۷ ]”پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے۔“ یعنی جب تم اس بہتان کو ایک دوسرے سے لے کر آگے بیان کرتے تھے کہ میں نے فلاں سے یوں سنا، فلاں نے یہ کہا وغیرہ۔
➋ وَ تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ: یعنی یہ صرف تمھارے مونہوں کی بات تھی، نہ تمھارے دل میں اس کا یقین تھا نہ سننے والے کو یقین ہو سکتا تھا، جیسا کہ منافقین کے متعلق فرمایا: « يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ »[ آل عمران: ۱۶۷ ]”اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔“
➌ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ: ” عِلْمٌ “ پر تنوین تنکیر کے لیے ہے، یعنی تم اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں کچھ علم نہ تھا۔
➍ وَ تَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا: تم اسے معمولی سمجھتے تھے، جس کی دلیل یہ ہے کہ تم اسے ایک دوسرے سے لے کر آگے بیان کرتے تھے، یا کم از کم اس پر خاموش رہتے تھے، کیونکہ اگر تم اسے معمولی نہ سمجھتے تو سختی سے اس کا انکار کرتے اور ایسی بات کرنے والے کو ٹوکتے۔
➎ وَ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ: حالانکہ بہتان کسی پر بھی ہو، اللہ کے ہاں بہت بڑا گناہ ہے، تو جب وہ ام المومنین پر ہو، جو خاتم الانبیاء، سید المرسلین اور سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہے تو کتنا بڑا گناہ ہو گا۔ رازی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تین گناہوں کا مرتکب قرار دیا اور اس پر عذاب عظیم کے خطرے سے آگاہ فرمایا۔ پہلا گناہ یہ کہ ایک دوسرے سے سن کر اسے پھیلانا برائی کی اشاعت ہے، جو بہت بڑا گناہ ہے۔ دوسرا گناہ وہ بات کرنا ہے جس کا علم نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ وہی بات کرنی چاہیے جس کا علم ہو، ایسی بات کرنا جس کے سچا ہونے کا علم نہ ہو اسی طرح حرام ہے جیسے وہ بات کرنا حرام ہے جس کے جھوٹا ہونے کا علم ہو، جیسا کہ فرمایا: « وَ لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ »[ بني إسرائیل: ۳۶ ]”اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ كَفٰي بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُّحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ][ مسلم، المقدمۃ: ۵ ]”آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر بات جو سنے آگے بیان کر دے۔“ تیسرا گناہ یہ کہ وہ اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
➏ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے کسی گناہ کو معمولی سمجھنے سے وہ معمولی نہیں ہوتا، بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اس کی دنیا و آخرت کی بربادی کا باعث بن جائے، جب وہ اسے معمولی سمجھ کر بار بار اس کا ارتکاب کرتا رہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللّٰهِ لَا يُلْقِيْ لَهَا بَالًا يَرْفَعُ اللّٰهُ بِهَا دَرَجَاتٍ وَ إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللّٰهِ لَا يُلْقِيْ لَهَا بَالًا يَهْوِيْ بِهَا فِيْ جَهَنَّمَ ][ بخاري، الرقاق، باب حفظ اللسان: ۶۴۷۸ ]”بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی بات کرتا ہے، جس کی طرف وہ خیال بھی نہیں کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کے ساتھ اسے بہت سے درجے بلند کر دیتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی بات کرتا ہے، جس کی طرف وہ خیال بھی نہیں کرتا، لیکن اس کے ساتھ وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔“,0,2
13752,2807,2807,1,(آیت 16) وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ …: اس سے پہلے آیت (۱۳) میں یہ ادب سکھایا تھا کہ جب اچھے لوگوں کے بارے میں کوئی نامناسب بات سنی جائے تو ان کے متعلق اچھا گمان رکھنا لازم ہے۔ اب اس کے متعلق دوسرا ادب بیان فرمایا کہ اگر کوشش کے باوجود کوئی وسوسہ یا خیال دل میں آ جائے تو اسے زبان پر ہر گز نہ لائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: [ إِنَّ اللّٰهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِيْ عَمَّا وَسْوَسَتْ أَوْ حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ أَوْ تَكَلَّمْ ][ بخاري، الأیمان والنذور، باب إذا حنث ناسیا …: ۶۶۶۴، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]”اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جو وہ اپنے دل میں کریں، جب تک وہ اسے قول یا عمل میں نہ لائیں۔“ یعنی جب تم نے یہ بات سنی تو بجائے اس کے کہ اس پر خاموش رہتے، یا اس پر یقین کرتے، یا اسے آگے پھیلاتے، تم نے سنتے ہی یہ کیوں نہ کہا کہ ہمارا حق نہیں کہ ہم یہ بات زبان پر لائیں، بلکہ ایسی بات سے اپنی شدید نفرت کے اظہار کے لیے ساتھ ہی یہ بھی کہنا تھا: «سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ» تو پاک ہے کہ تیرے نبی کی بیوی بدکاری کے ارتکاب سے آلودہ ہو، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ نبی کی بیوی بدکار ہو، وہ کافر تو ہو سکتی ہے، بدکار نہیں، کیونکہ انبیاء کفار کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تو ضروری ہے کہ جو چیز کفار کے نزدیک قابل نفرت ہو وہ اس سے پاک ہوں اور ظاہر ہے کہ عورت کی بدکاری ان کے نزدیک بھی قابل نفرت ہے۔,0,2
13753,2808,2808,1,(آیت 17) يَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٖۤ …:” يَعِظُكُمْ“ کے ضمن میں ” يَنْهَاكُمْ“ کا معنی موجود ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے منع کرتا ہے کہ دوبارہ کبھی ایسا کام کرو، اگر تم مومن ہو، یعنی یہ کام ایمان کے منافی ہے جس کا تم دعویٰ کرتے ہو۔,0,2
13754,2809,2809,1,(آیت 18) وَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ …: آیات کو کھول کر بیان کرنے کے ساتھ علیم و حکیم کی مناسبت ظاہر ہے۔,0,2
13755,2810,2810,1,(آیت 19) ➊ اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ …: ” الْفَاحِشَةُ “ انتہائی برے کام کو کہتے ہیں، یہ لفظ زنا پر بھی بولا جاتا ہے اور اس کی تہمت اور چرچے پر بھی۔ یعنی جو لوگ ایمان والوں میں بے حیائی اور بدکاری کا تذکرہ پھیلانا چاہتے ہیں اور پاک دامن مسلمانوں پر تہمتیں تراش کر مجلسوں میں ان کا چرچا کرتے ہیں، جس کے سننے سے زنا سے نفرت ختم ہوتی ہے، بلکہ ایسی باتوں میں دلچسپی کے نتیجے میں یہ برائی مزید پھیلتی ہے اور اس کا ذکر کرنے والے اور اسے خاموشی سے سن کر تہمت تراشنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے، عفیف مسلمانوں کے گوشت سے لذت اٹھاتے ہیں۔ ان کے لیے دنیا میں عذابِ الیم ہے کہ تہمت لگانے والوں کو درّے پڑتے ہیں اور وہ مردود الشہادہ اور فاسق ٹھہرتے اور ان کا اور ان کے مجلس نشینوں کا نفاق اور فسق مسلمانوں کے سامنے بے نقاب ہو جاتا ہے، جس سے وہ مسلم معاشرے میں بے اعتبار ٹھہرتے ہیں اور آخرت کے عذاب کے المناک ہونے کی کوئی حد ہی نہیں۔
➋ آج کل تمام دنیا کے کفار اور ان کے مددگار مسلم حکمرانوں کی پوری کوشش ہے کہ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، سکول و کالج کی تعلیم، غرض ہر طریقے سے مسلم معاشروں میں زنا اور اس کا تذکرہ عام ہو۔ ایک آدھ ملک کے سوا کسی ملک میں نہ زنا کی حد نافذ ہے نہ بہتان کی۔ نتیجہ اس کا دشمنوں کے خوف، قتل و غارت، بدامنی، وباؤں اور نئی سے نئی بیماریوں کے عذابِ الیم کی صورت میں سب کے سامنے ہے اور قیامت کا عذابِ الیم ابھی باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
➌ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ: یعنی زنا کی حد اور بہتان کی حد جو اللہ نے مقرر فرمائی ہے اور ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں جو عذابِ الیم رکھا ہے، سو اس کی وجہ یہ ہے کہ ”اللہ تعالیٰ ہر بات جانتا ہے“، اسے ان گناہوں کے خوفناک نتائج کا بھی علم ہے اور یہ بھی کہ انھیں کیسے روکا جا سکتا ہے۔ ”اور تم نہیں جانتے“ لہٰذا تم اپنی عقل سے جو بھی قاعدہ و قانون مقرر کرو گے وہ تمھاری لاعلمی کی وجہ سے کبھی بھی مسلمانوں کی پاک دامنی اور ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کا ضامن نہیں بن سکتا۔,0,2
13756,2811,2811,1,(آیت 20) وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ …: اس کا جواب محذوف ہے ”تو تمھیں توبہ کا موقع ہی نہ ملتا اور فوراً اللہ کا عذاب تمھیں اپنی گرفت میں لے لیتا، یہ محض اس کا فضل و رحمت اور اس کا رؤف و رحیم ہونا ہے کہ اس نے تمھیں توبہ کا موقع دیا اور حد کے ذریعے سے تمھیں پاک کرنے کا اہتمام فرمایا۔“,0,2
13757,2812,2812,1,(آیت 21) ➊ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ…: ” خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ “ كی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۱۶۸) اور ” بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ “ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نحل کی آیت (۹۰) پہلے فرمایا: « لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ » پھر ” الشَّيْطٰنِ “ کے لیے ضمیر لا کر ”وَ مَنْ يَّتَّبِعْ خُطُوَاتِهِ“ کہنے کے بجائے دوبارہ نام لے کر فرمایا: «وَ مَنْ يَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ» مراد توجہ دلانا ہے کہ آدمی سوچے کہ میں کس کی پیروی کر رہا ہوں۔
➋ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ …: اس آیت سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی شخص کسی طرح بھی اپنے آپ کو پاک نہیں رکھ سکتا، نہ پاک کر سکتا ہے۔ اگر انسان کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو کوئی انسان بھی پاک نہ رہ سکے، کیونکہ شیطان اور اس کے لشکر اسے گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ”فحشاء“ اور ”منکر“ کو خوش نما بنا کر اس کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں، نفس امارہ ان کی طرف مائل ہے اور ان کا حکم دیتا ہے۔انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے، یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہی ہے جس کی بدولت کوئی شخص گناہوں سے پاک رہتا ہے، یا گناہ کے بعد توبہ کے ساتھ پاک ہوتا ہے۔ اس مفہوم کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ نساء (۱۶، ۱۷) اور سورۂ نجم (۳۲)۔
➌ اس مقام پر ان الفاظ سے مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ واقعۂ افک میں ملوث ہونے سے بچ گئے، یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے جو ان پر ہوا، ورنہ وہ بھی اسی رو میں بہ جاتے جس میں بعض مسلمان بہ گئے تھے۔ اس لیے شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لیے ایک تو ہر وقت اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور اس کی طرف رجوع کرتے رہو اور دوسرے جو لوگ اپنے نفس کی کمزوری سے شیطان کے فریب کا شکار ہو گئے ان کو زیادہ ہدف ملامت نہ بناؤ، بلکہ خیر خواہانہ طریقے سے ان کی اصلاح کرو۔
➍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ: یعنی اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے، مگر اس کی مشیت اندھی نہیں، بلکہ وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ اپنے اس علم ہی کی وجہ سے جسے پاک کرنے کے لائق جانتا ہے پاک کر دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا: « اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ »[ القصص: ۵۶ ]”بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔“,0,2
13758,2813,2813,1,(آیت 22) ➊ وَ لَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ …: ” وَ لَا يَاْتَلِ “” أَلِيَّةٌ “(بروزن فَعِيْلَةٌ، بمعنی قسم) میں سے باب افتعال ”اِئْتَلٰي يَأْتَلِيْ“ میں سے نہی غائب ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت (۲۲۶): « لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآىِٕهِمْ » میں ” يُؤْلُوْنَ “ باب افعال میں سے ہے۔ سورۂ نور کی آیت (۱۱) میں صحیح بخاری کی حدیث (۴۷۵۰) گزر چکی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان لگانے والوں میں مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ زاد بہن کے بیٹے تھے (بعض نے انھیں خالہ زاد بھی کہا ہے)، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قرابت اور ان کے فقر کی وجہ سے ان کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، جب مسطح نے یہ بات کی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ وظیفہ بند کر دیا، لیکن جب یہ آیت اتری اور اس میں یہ الفاظ آئے: « اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ »”کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے؟“ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا، کیونکہ نہیں، میں تو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔ چنانچہ انھوں نے وہ وظیفہ دوبارہ جاری کر دیا اور کہا، میں اس میں کبھی کمی نہیں کروں گا۔
➋ پچھلی آیت میں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے تو اگر اہلِ افک اس گناہ میں مبتلا ہوئے ہیں اور تم اس سے محفوظ رہے ہو تو اس میں تمھارا کچھ کمال نہیں، یہ محض اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے، اس لیے جب بہتان لگانے والے تائب ہو چکے، انھیں اس کی سزا بھی مل چکی تو ان کی غلطی ہی پر نظر نہ رکھو، بلکہ ان سے حُسن سلوک کے اسباب پر بھی نگاہ رکھو، جن میں سے ہر سبب کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمھیں برتری اور وسعت دی ہے اس میں سے انھیں بھی دیتے رہو۔ ان حُسن سلوک کے اسباب میں سے ایک سبب قرابت دار ہونا ہے، دوسرا مسکین اور تیسرا مہاجر فی سبیل اللہ ہونا ہے۔ تینوں سبب جمع ہیں تو ان کا حق انھیں بالاولیٰ دینا چاہیے۔
➌ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مرتد ہونے کے سوا دوسرے گناہوں سے کسی شخص کے اعمال صالحہ بالکل ختم نہیں ہو جاتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بہتان لگانے کے باوجود اہل افک میں سے مہاجرین کی ہجرت کی قدر افزائی فرمائی ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔
➍ وَ لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا:” وَ لْيَعْفُوْا “”عَفَا يَعْفُوْ“ کا معنی مٹانا ہے، کہا جاتا ہے: ”عَفَتِ الرِّيْحُ الْأَثَرَ“”ہوا نے قدموں کا نشان مٹا دیا۔“ یعنی ان کی لغزش کا خیال دل سے مٹا دیں اور اس پر پردہ ڈال دیں۔ ” وَ لْيَصْفَحُوْا “ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہ ”صَفْحَةُ الْعُنُقِ“(گردن کا کنارہ) سے مشتق ہے، یعنی ان کے برے سلوک سے اس طرح درگزر کرو جیسے تم نے ان سے گردن کا کنارا پھیر لیا ہے۔ عفو و درگزر کا یہ حکم سورۂ آل عمران (۱۳۴)، نساء (۱۴۹)، حجر (۸۵)، شوریٰ (۴۳) اور دیگر کئی آیات میں آیا ہے۔ (اضواء البیان)
➎ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ: اس کی شان نزول اوپر بیان ہو چکی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ گناہ گار مسلم کو معاف کرنا اور اس سے درگزر کرنا گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔ تم بخشو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں بخشے گا، تم درگزر کر وگے تو اللہ تعالیٰ تم سے درگزر فرمائے گا، جیسا عمل کرو گے ویسی جزا پاؤ گے۔
➏ یہ آیت دلیل ہے کہ نیکی نہ کرنے کی قسم کھانا جائز نہیں، ایسی قسم کا کفارہ دے کر وہ نیکی کر لینی چاہیے۔ اسی طرح اگر قسم کا پورا نہ کرنا بہتر ہو تو اس کا بھی کفارہ دے کر بہتر کام کرنا چاہیے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنْ حَلَفَ عَلٰی يَمِيْنٍ فَرَأَی غَيْرَهَا خَيْرًا مِّنْهَا فَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَّمِيْنِهِ وَلْيَفْعَلْ ][ ترمذي، النذور والأیمان، باب ما جاء في الکفارۃ قبل الحنث: ۱۵۳۰، و قال الألباني صحیح ]”جو شخص کسی کام پر قسم کھائے، پھر اس کے علاوہ کو بہتر سمجھے تو اسے چاہیے کہ اپنی قسم کا کفارہ دے دے اور (بہتر کام) کر لے۔“,0,2
13759,2814,2814,1,(آیت 23) ➊ اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ …: ” الْغٰفِلٰتِ “(بے خبر) سے مراد وہ سیدھی سادی شریف عورتیں ہیں جن کے دل پاک ہیں اور ان کے دل میں بدچلنی کا بھولے سے بھی خیال نہیں آتا، ان میں سے کسی پر تہمت لگانا کبیرہ گناہ اور لعنت کا باعث ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ، قَالُوْا يَا رَسُوْلَ