(آیت 1) ➊ سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا:” سُوْرَةٌ“ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے اور یہ مبتدا محذوف ”هٰذِهِ“ کی خبر ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”(یہ) ایک عظیم سورت ہے۔“
➋ ” اَنْزَلْنٰهَا “(ہم نے اسے نازل کیا) یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کے اظہار کے لیے اپنا ذکر جمع متکلم کے صیغے (ہم نے) کے ساتھ فرمایا ہے، بلکہ” اَنْزَلْنٰهَا “” فَرَضْنٰهَا “ اور ” اَنْزَلْنَا فِيْهَاۤ “ تینوں میں زور جمع متکلم کے صیغہ ”ہم نے“ پر ہے، یعنی اس کا نازل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ”ہم“ ہیں۔ اس لیے اسے کسی بے اختیار واعظ کی بات سمجھ کر ہلکا نہ سمجھ بیٹھنا، بلکہ خوب جان لو کہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس کی مٹھی میں ساری کائنات ہے، جو ہر جان دار کی پیشانی پکڑے ہوئے ہے اور تم مر کر بھی اس کی گرفت سے نہیں نکل سکتے۔
➌ ” اَنْزَلْنَا “(نازل کرنے) سے ظاہر ہے کہ اسے اتارنے والا بلندی پر ہے اور اس نے اسے بلند مقام عرش سے اتارا ہے، جیسا کہ خود اس نے فرمایا: «اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى» [ طٰہٰ: ۵ ]”وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔“ ان مفسروں پر افسوس ہوتا ہے جو یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اللہ تعالیٰ بلندی پر ہے، اس لیے وہ ”ہم نے نازل کیا“ کی بھی تاویل بلکہ تحریف پر اصرار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جہت میں نہیں، نہ کسی جگہ میں ہے، وہ نہ اوپر ہے نہ نیچے، نہ دائیں ہے نہ بائیں، نہ آگے ہے اور نہ پیچھے۔ پھر وہ کہاں ہے؟ کہتے ہیں کسی جگہ بھی نہیں۔ مگر وہ اس فطری تقاضے کا کیا کریں گے جو ہر انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اپنے ہاتھ اور اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائے۔ ان حضرات میں سے کئی ایسے دیدہ دلیر بزرگ بھی گزرے ہیں اور کئی موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ سوال ہی غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ بلکہ جو شخص یہ سوال کرے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے وہ کافر ہے۔ ان لوگوں کو یہ خوف بھی نہیں آتا کہ ان کے فتوے کی زد میں کون کون آ رہا ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی کے ایمان کا امتحان لیتے ہوئے دو سوال کیے تھے، ایک یہ کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: ”آسمان میں۔“ دوسرا سوال یہ کیا کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا: ”آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مومنہ ہے۔“[ مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام في الصلاۃ…: ۵۳۷ ]
➍ وَ فَرَضْنٰهَا: یعنی اس سورت میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ محض سفارشات نہیں ہیں کہ جی چاہے تو مانو، ورنہ جو جی میں آئے کرتے رہو، بلکہ یہ قطعی احکام ہیں جن پر عمل کرنا ہم نے تم پر اور تمھارے بعد آنے والوں پر فرض کر دیا ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: ” اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا “ سے اس سورت کی عظمت اور اہمیت بیان کرنا مقصود ہے، یہ مقصد نہیں کہ دوسری سورتوں کی یہ شان نہیں ہے۔
➎ وَ اَنْزَلْنَا فِيْهَاۤ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ: یعنی اس سورت میں ہم نے جو احکام و مسائل بیان کیے ہیں ان میں کوئی پیچیدگی یا ابہام نہیں ہے، صاف اور واضح ہدایات ہیں، جن کے متعلق تم یہ عذر نہیں کر سکتے کہ فلاں بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی، تو ہم اس پر عمل کیسے کرتے؟ اس پرُ زور تمہید سے اس سورت میں مذکور احکام کی اہمیت واضح ہو رہی ہے۔ اس کے بعد احکام شروع ہوتے ہیں۔