(آیت 118) ➊ وَ قُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ …: اس سے پہلے آیت (۱۰۹) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کامیاب ہونے والے بندوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ یہ دعا ” رَبِّنَااٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ “ کرتے ہیں اور سورت کے آخر میں انھی بندوں کی طرح کفار و مشرکین سے کٹ کر اپنے رب کی مغفرت اور رحمت کے دامن میں پناہ لینے کا حکم دیا۔ وہ تمام دعائیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لفظ ” قُلْ “ کے ساتھ حکم دیا ہے، نہایت جامع دعائیں ہیں اور عجیب و غریب اسرار رکھتی ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرنے کا حکم ہے، جن کے پہلے پچھلے تمام گناہ اللہ نے معاف فرما دیے (دیکھیے فتح: ۲) تو امت کو تو بدرجۂ اولیٰ یہ دعا کرنے کا حکم ہے۔
➋ ابن کثیر نے فرمایا: ”اَلْغَفْرُ“ کا لفظ جب مطلق آئے تو اس کا معنی گناہ کو مٹانا اور لوگوں کے سامنے اس پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے اور ”رحمت “ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اقوال و افعال میں سیدھا رکھے اور اپنی توفیق خاص سے نوازے۔
➌ وَ اَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ: یہ مختصر جملہ ہے، مکمل جملہ یوں ہے: ”رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ فَأَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِيْنَ وَ أَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِيْنَ “ اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے آیت (۱۰۹) کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ سب رحم کرنے والوں سے بہتر اس لیے ہے کہ دوسرے سب رحم کرنے والے اسی کا عطا کردہ رحم کرتے ہیں اور وہ بھی اس کی رحمت کے سویں حصے میں سے اپنے حصے میں آنے والے رحم سے۔
➍ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ”مجھے ایسی دعا سکھائیں جو میں اپنی نماز میں کروں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یوں کہو: [ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْمًا كَثِيْرًا وَّلَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْلِيْ مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِيْ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ][ بخاري، الأذان، باب الدعاء قبل السلام: ۸۳۴ ]”اے اللہ! یقینا میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، بہت زیادہ ظلم اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا، سو مجھے بخش دے، عظیم بخشش اپنے پاس سے اور مجھ پر رحم کر، کیونکہ تو ہی غفور و رحیم ہے۔“