(آیت 109) ➊ اِنَّهٗ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ …: ” فَرِيْقٌ “ کے لفظ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے وہ بندے کفار اور ان کے عقیدہ و عمل سے یکسر الگ گروہ تھے۔ مقصود اس کلام سے کفار کو دنیا میں اہل ایمان کے ساتھ ان کے سلوک کی اور اہل ایمان کی موجودہ حالت کی خبر دے کر حسرت و افسوس دلانا ہے۔
➋ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: [ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ إِيْمَانٌ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ ][ بخاري، الإیمان، باب من قال إن الإیمان ھو العمل: ۲۶ ]” کون سا عمل افضل ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔“ یعنی میرے بندوں میں سے ایک گروہ کے لوگ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لانے کے عمل کا وسیلہ پیش کرکے مجھ سے دعا کیا کرتے تھے۔ اس سے دعا کے وقت اپنے کسی خالص عمل کا وسیلہ پیش کرنا ثابت ہوا۔ دیکھیے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی تفسیر اور آل عمران کی آیت (۱۹۳) کی تفسیر۔
➌ فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا: ”غَفَرَ“ کا معنی پردہ ڈالنا ہے۔ ”اَلْمِغْفَرُ“ خَود کو کہتے ہیں، جو لوہے کا ہوتا ہے اور دشمن کی ضرب سے پردے کا کام دیتا ہے، یعنی اے ہمارے رب! ہم تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائے ہیں، اس لیے تو ہمارے گناہوں اور لغزشوں پر پردہ ڈال، ایسا پردہ کہ کراماً کاتبین کے دفتر میں بھی نظر نہ آئے اور ہم پر رحم کر۔
➍ وَ اَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ: یہاں بقاعی رحمہ اللہ نے واؤ عطف کا نکتہ بیان فرمایا ہے (اور انھوں نے تقریباً ہر ایسی جگہ مقام کے مطابق کوئی نکتہ بیان فرمایا ہے، جو صاحب ذوق حضرات کے لیے نہایت پر لطف ہے) وہ کہتے ہیں کہ واؤ کا مطلب یہ ہے کہ ”اَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ “ سے پہلے ایک جملہ ہے جس پر ” اَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ “ کا عطف ہے۔ ” فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا “ کی مناسبت سے پورا کلام اس طرح ہے: ” فَأَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِيْنَ وَ أَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِيْنَ۔“ واؤ عطف سے چونکہ بات واضح ہو رہی ہے، اس لیے ” أَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِيْنَ “ کو حذف کر دیا، کیونکہ مسلمہ قاعدہ ہے: ”خَيْرُ الْكَلَامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ“ کہ بہترین کلام وہ ہے جس میں الفاظ کم ہوں اور وہ مدلل ہو۔