(آیت 108)قَالَ اخْسَـُٔوْا فِيْهَا …:” خَسَأَ يَخْسَأُ(منع)أَيْ ذَلَّ۔“” اخْسَـُٔوْا “ ذلیل رہو، دفع دور رہو۔ یہ لفظ کتے وغیرہ کو دھتکارنے کے لیے بولا جاتا ہے، پھر اس کا استعمال ہر اس شخص کے لیے بھی ہونے لگا جسے حقیر اور ذلیل قرار دے کر دور دفع ہونے کے لیے کہا جائے، یعنی اللہ تعالیٰ انھیں دھتکارتے ہوئے فرمائیں گے کہ اسی جہنم میں ذلیل اور دور دفع رہو اور مجھ سے بات مت کرو۔ بعض روایات میں ہے کہ اس کے بعد ان کی زبانیں بند ہو جائیں گی اور یہ ان کا آخری کلام ہو گا، مگر انھی آیات میں آگے ان کی اللہ تعالیٰ سے گفتگو آ رہی ہے: «قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِيْنَ (112) قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَسْـَٔلِ الْعَآدِّيْنَ» [ المؤمنون: ۱۱۲، ۱۱۳ ]”فرمائے گا تم زمین میں سالوں کی گنتی میں کتنی مدت رہے؟ وہ کہیں گے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، سو شمار کرنے والوں سے پوچھ لے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ ایسی کوئی روایت صحیح نہیں۔ البتہ آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کی درخواست حقارت کے ساتھ رد کر دی جائے گی۔