(آیت 101) ➊ فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ: نسب سے مراد وہ قرابت ہے جو ولادت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔ ” بَيْنَهُمْ “ سے مراد کفار ہیں، کیونکہ پیچھے انھی کا ذکر آ رہا ہے۔ عالم برزخ کے بعد جب قبروں سے زندہ ہو کر نکلنے کے لیے صور میں پھونکا جائے گا تو کفار کی باہمی تمام نسبی قرابتیں ختم ہو جائیں گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کسی کا باپ یا بیٹا یا بھائی نہیں رہے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس نسبی تعلق کی وجہ سے جو ایک دوسرے کی مدد ہوتی ہے، وہ نہیں ہو گی، جیسا کہ فرمایا: «يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ (34) وَ اُمِّهٖ وَ اَبِيْهِ (35) وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِيْهِ (36) لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ»[عبس: ۳۴ تا ۳۷ ]”جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا۔اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ اس دن ان میں سے ہر شخص کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا بنا دے گی۔“ یہ حال مجرموں کا ہو گا، جیسا کہ فرمایا: «يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِيْ مِنْ عَذَابِ يَوْمِىِٕذٍۭ بِبَنِيْهِ (11) وَ صَاحِبَتِهٖ وَ اَخِيْهِ (12) وَ فَصِيْلَتِهِ الَّتِيْ تُـْٔوِيْهِ (13) وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ثُمَّ يُنْجِيْهِ» [ المعارج: ۱۱ تا ۱۴ ]”مجرم چاہے گا کاش کہ اس دن کے عذاب سے (بچنے کے لیے) فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو۔ اور اپنے خاندان کو، جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔ اور ان تمام لوگوں کو جو زمین میں ہیں، پھر اپنے آپ کو بچا لے۔“ یہ معاملہ صور پھونکنے کے وقت ہو گا۔ بعد میں بھی کفار کا حال یہی رہے گا۔ البتہ ایمان والوں کو ان کی نسبی قرابت کا فائدہ ہو گا اور دوستی کا بھی، جیسا کہ فرمایا: «وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ» [ الطور: ۲۱ ]”اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد کسی بھی درجے کے ایمان کے ساتھ۔ ان کے پیچھے چلی، ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان سے ان کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے۔“ اور دوستی کے متعلق فرمایا: «اَلْاَخِلَّآءُ يَوْمَىِٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ»[ الزخرف: ۶۷ ]”سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، مگر متقی لوگ۔“
➋ وَ لَا يَتَسَآءَلُوْنَ: یہاں ایک سوال ہے کہ یہاں فرمایا کہ وہ ایک دوسرے سے سوال نہیں کریں گے، جب کہ دوسری جگہ فرمایا: «وَ اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ يَّتَسَآءَلُوْنَ» [ الصافآت: ۲۷ ]”اور ان کے بعض بعض کی طرف متوجہ ہوں گے، ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔“ ایسا کیوں ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا دن ہے۔ اس میں مختلف مواقع اور مختلف حالتیں ہوں گی، کسی حالت میں ایک دوسرے سے سوال کریں گے اور کسی میں نہیں کریں گے۔ لہٰذا ان آیات میں تعارض نہیں۔