(آیت 99) ➊ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ: یہاں ایک سوال ہے کہ لفظ ” حَتّٰۤى “(یہاں تک) کا تعلق کس سے ہے؟ مفسرین نے اس کی کئی توجیہیں فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کفار کی برائیوں کا جواب بہترین طریقے سے دیتے رہیں اور جو باتیں یہ بناتے ہیں انھیں ہمارے حوالے کرتے رہیں، یہاں تک کہ…الخ۔ دوسری توجیہ اس سے زیادہ واضح ہے کہ اس کا تعلق محذوف جملے سے ہے جو ” حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ “ سے خود بخود معلوم ہو رہا ہے۔ ”أَيْ لَا يَزَالُوْنَ كَذٰلِكَ حَتّٰي إِذَا جَاءَ …“ یعنی وہ اسی طرح اپنے کفر و شرک پر قائم رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے…۔ اس طرح جملے کے حذف کی مثال فرزدق کا شعر ہے:
فَيَا عَجَبَا حَتّٰي كُلَيْبٌ تَسُبُّنِيْ
كَأَنَّ أَبَاهَا نَهْشَلٌ أَوْ مُجَاشِعُ
(أَيْ يَسُبُّنِيَ النَّاسُ حَتّٰي كُلَيْبٌ)”یعنی تعجب ہے کہ مجھے سبھی لوگ گالی دیتے ہیں، حتیٰ کہ بنو کلیب بھی گالی دیتے ہیں، جیسے ان کا باپ نہشل یا مجاشع ہے، یعنی کسی نامور باپ کی اولاد نہ ہونے کے باوجود کلیب جیسے قبیلے کے بے وقعت لوگ بھی میرے جیسے اونچے نسب والے شخص کو گالی دیتے ہیں۔“
➋ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ: ”رَجَعَ يَرْجِعُ“ لازم بھی آتا ہے اور متعدی بھی، اس کا معنی لوٹنا بھی ہے اور لوٹانا بھی، یہاں مراد لوٹانا ہے۔ یعنی کافر و مشرک اپنے کفر و شرک پر اڑے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے اور رسولوں کی بتائی ہوئی وہ تمام حقیقتیں آنکھوں کے سامنے آتی ہیں، جنھیں وہ اب تک جھٹلاتے رہے تھے، تو وہ مہلت دینے اور دنیا کی طرف واپس لوٹانے کی درخواست کرتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ منافقون (۱۰، ۱۱) اور ابراہیم (۴۴) یہ درخواست وہ موت کے وقت بھی کریں گے، قیامت کے دن بھی اور آگ کو دیکھ کر بھی، جیسا کہ دوسری آیات میں آیا ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۵۳)، سجدہ (۱۲)، انعام (۲۷)، شوریٰ (۴۴)، مؤمن (۱۱)، فاطر (۳۷) اور سبا (۵۱ تا ۵۳)۔
➌ ” رَبِّ “(اے میرے رب!) میں مخاطب واحد ہے، جبکہ ” ارْجِعُوْنِ “(مجھے واپس بھیجو) میں مخاطب جمع ہے۔ مفسرین نے اس کی تین توجیہیں کی ہیں، ایک یہ کہ کافر نہایت عجز کے ساتھ درخواست کرتے ہوئے تعظیم کے لیے اللہ تعالیٰ کو جمع کے صیغے سے مخاطب کرے گا، جیسا کہ تمام زبانوں میں یہ انداز معروف ہے، عربی میں بھی ایسے ہی ہے۔ جیسا کہ فرشتوں نے سارہ علیھا السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: «اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ»[ ھود: ۷۳ ]”کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے گھر والو!“ ابن عاشور لکھتے ہیں کہ مخاطب مذکر ہو یا مؤنث، تعظیم کے وقت اس کے لیے جمع مذکر کی ضمیر ”كُمْ“ ہی استعمال ہوتی ہے۔ کلام عرب میں واحد مخاطب کے لیے جمع کی ضمیر کی مثال حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
اس شعر میں شاعر نے ”فَارْحَمْنِيْ“ کے بجائے ”فَارْحَمُوْنِيْ“ کہا ہے اور حماسہ کے شاعر جعفر بن عُلبہ حارثی کا شعر ہے، جس میں وہ اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
فَلاَ تَحْسَبِيْ أَنِّيْ تَخَشَّعْتُ بَعْدَكُمْ
لِشَيْءٍ وَ لَا أَنِّيْ مِنَ الْمَوْتِ أَفْرَقُ
”پس تو یہ گمان نہ کر کہ میں تمھارے بعد کسی چیز کی وجہ سے عاجز ہو گیا ہوں اور نہ یہ کہ میں موت سے ڈرتا ہوں۔“
اس شعر میں شاعر نے ”بَعْدَكِ“ کے بجائے ”بَعْدَكُمْ“ کہا ہے۔ یہ توجیہ سب سے اچھی ہے۔ دوسری توجیہ طبری رحمہ اللہ نے فرمائی ہے کہ کافر کلام کی ابتدا ” رَبِّ “ سے کرے گا، جو استغاثہ کے لیے ہے، مگر وہ واپس بھیجنے کی درخواست ان فرشتوں سے کرے گا جو اس کی روح نکالنے کے لیے آئے ہوں گے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ کسی کو پکڑ لیں اور وہ کہے ”ہائے اللہ! مجھے چھوڑ دو۔“ یہ توجیہ بھی بہت اچھی ہے۔ تیسری توجیہ یہ ہے کہ کافر اللہ تعالیٰ سے بار بار درخواست کرے گا: ”ارْجِعْنِيْ، ارْجِعْنِيْ، ارْجِعْنِيْ“ تو اس تکرار کے بیان کے لیے جمع کا صیغہ ” ارْجِعُوْنِ “ استعمال کیا گیا ہے۔ اس توجیہ کی معتبر نظیر مجھے نہیں ملی۔