(آیت 89) ➊ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ: یعنی وہ کہیں گے اس کا مالک بھی اللہ ہی ہے۔
➋ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ: ” تُسْحَرُوْنَ “ کا لفظی معنی ہے ”جادو کیے جاتے ہو۔“ جادو کا اثر دماغ پر ہوتا ہے، آدمی دھوکا کھا جاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ پھر تمھاری مت کہاں سے ماری جا رہی ہے اور تمھارے ہوش و حواس کیسے گم ہو گئے کہ ایسی موٹی بات نہیں سمجھ سکتے۔ جب زمین و آسمان اور عرش عظیم کا مالک وہی ہوا اور ہر چیز اسی کے قبضہ و اختیار میں ہوئی تو عبادت میں اس کا شریک کہاں سے نکل آیا اور تمھارے بدن کی ہڈیاں اور ریزے اس کی قدرت و اختیار سے نکل کر کہاں چلے جائیں گے کہ وہ انھیں زندہ نہیں کر سکے گا۔
➌ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کا عقیدہ یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ جسے پکڑ لے اسے کوئی پناہ دے کر چھڑا نہیں سکتا اور جسے اپنی پناہ میں لے لے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ مگر افسوس کہ بعض مسلمان کہلانے والے شرک میں اس حد تک بڑھ گئے کہ مخلوق کو خالق سے بھی زیادہ اختیار رکھنے والا بنا دیا، چنانچہ ایسے ہی ایک تُک باندھنے والے نے کہا ہے:
خدا جس کو پکڑے چھڑا لے محمد
محمد کا پکڑا چھڑا کوئی نہیں سکتا
عجیب بات یہ ہے کہ اس صریح شرک اور اللہ تعالیٰ کی شدید گستاخی کے باوجود انھیں اصرار ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کے مسلمان ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَا تُطْرُوْنِيْ كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰهِ وَ رَسُوْلُهُ ][بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی: «واذکر في الکتاب مریم…»: ۳۴۴۵ ]”مجھے حد سے مت بڑھاؤ، جیسے نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا، میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، چنانچہ یہی کہو کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“