(آیت 87،86) ➊ قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ …: زمین کے بعد ان سے عالم بالا کے متعلق سوال کرنے کا حکم دیا، کیونکہ آسمان زمین سے کہیں بڑا ہے، پھر ہر آسمان نیچے والے سے بڑا ہے اور ان سے اوپر عرش ان سب کو محیط ہے، جسے رب تعالیٰ نے عظیم (بہت بڑی عظمت والا) فرمایا ہے اور جو زمین و آسمان اور ان میں موجود ہر چیز سے پہلے موجود تھا۔ فرمایا: ”پوچھو، ان کا رب کون ہے؟“ فرمایا: ”وہ جواب میں کہیں گے، یہ سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے۔“ فرمایا: ”تو پھر تم ڈرتے نہیں؟“ پہلے فرمایا تھا: «اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ»(پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟) اب اس سے سخت الفاظ میں فرمایا: «اَفَلَا تَتَّقُوْنَ» (تو پھر کیا تم ڈرتے نہیں؟) کیونکہ کوئی شخص جس قدر اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا علم رکھے گا اتنا ہی زیادہ وہ اس سے ڈرے گا۔ مثلاً ایک بچے کو کچھ علم نہیں کہ بادشاہ کتنی قوت کا مالک ہے، وہ اس سے نہیں ڈرے گا۔ ہاں، جسے جس قدر معلوم ہو گا کہ بادشاہ کتنی قوت رکھتا ہے، وہ اس سے اتنا ہی ڈرے گا۔ اس لیے فرمایا: «اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا» [ فاطر: ۲۸ ]”اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں۔“ یہاں فرمایا کہ یہ جان کر بھی کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب اللہ ہے، تم اس کے ساتھ شریک بناتے ہو اور اس کی دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا انکار کرتے ہو، تو کیا تم ڈرتے نہیں؟
➋ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ: یہاں ایک سوال ہے کہ یہ کہنے کے بعد کہ ساتوں آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟ جو اب بظاہر یہ ہے: ”اَللّٰهُ“ کہ وہ اللہ ہے، اس کے بجائے فرمایا: ” لِلّٰهِ “ کہ یہ سب کچھ اللہ کے لیے ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کا جواب طبری اور دوسرے مفسرین نے یہ دیا ہے کہ ” مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ “(ساتوں آسمانوں کا رب کون ہے؟) کا معنی یہی ہے کہ ”لِمَنِ السَّمٰوَاتُ السَّبْعُ“ یعنی ساتوں آسمان اور عرش عظیم کس کی ملکیت ہیں؟ اس لیے جواب آیا: ” لِلّٰهِ “ کہ یہ سب اللہ کی ملکیت ہیں۔
➌ حجاز، عراق اور شام کے تمام قراء اس لفظ کو ” لِلّٰهِ “ پڑھنے پر متفق ہیں، کیونکہ ان کی طرف امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے جو مصحف بھیجے گئے، ان میں یہ لفظ اسی طرح ہے۔ البتہ بصرہ کے قاری ابو عمرو رحمہ اللہ اسے ”اَللّٰهُ“ پڑھتے ہیں، کیونکہ ان کے مصحف میں اسی طرح لکھا ہے۔ اس صورت میں معنی واضح ہے کہ ”وہ اللہ ہے۔“ طبری نے ” لِلّٰهِ “ کی قراء ت کو راجح قرار دیا ہے، کیونکہ بصرہ کے سوا تمام بلادِ اسلام کے مصاحف میں یہ لفظ اسی طرح لکھا ہے۔
➍ ابن عاشور رحمہ اللہ نے ” لِلّٰهِ “ میں ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ سوال تو یہ تھا کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟ ان کی طرف سے اس کا جواب یہ ذکر فرمایا کہ وہ (یہ کہنے کے بجائے کہ ان کا رب اللہ ہے) یہ کہیں گے کہ یہ سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے، کیونکہ وہ زمین و آسمان اور عرش عظیم غرض ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے تھے، مگر انھوں نے شریک اور رب کئی بنا رکھے تھے۔ چنانچہ وہ حج و عمرہ کے لیے لبیک کہتے ہوئے کہتے تھے: [ لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ … إِلَّا شَرِيْكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ ][ مسلم، الحج، باب التلبیۃ وصفتھا و وقتھا: ۱۱۸۵ ]”(اے اللہ!) میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں …مگر تیرا ایک شریک ہے، اس کا مالک بھی تو ہے، وہ کسی شے کا مالک نہیں۔“ مشرکین عرب فرشتوں کو اور مشرکین یہود و نصاریٰ عزیر اور عیسیٰ علیھما السلام کو رب سمجھتے تھے۔ یوسف علیہ السلام نے قید خانے کے ساتھیوں کو فرمایا: «ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ» [ یوسف: ۳۹ ]”کیا الگ الگ رب بہتر ہیں یا اللہ، جو اکیلا ہے، نہایت زبردست ہے۔“ غرض مشرکین مالک صرف اللہ کو سمجھتے، مگر رب دوسروں کو بھی مانتے تھے، اس لیے فرمایا: «اَفَلَا تَتَّقُوْنَ» کہ پھر کہہ دے کہ ہر چیز کا مالک اللہ کو مان کر پھر دوسرے ارباب کی پرستش کرتے ہو، تو تم اس کے غصے سے ڈرتے نہیں کہ وہ ساری کائنات کا مالک تمھارے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟