(آیت 85،84) ➊ قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِيْهَاۤ …: جب کفار نے اتنی شدت کے ساتھ قیامت کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان سے ان باتوں کا اقرار کروائیں اور ان کی زبان سے کہلوائیں جنھیں وہ جانتے پہچانتے اور مانتے ہیں، جنھیں تسلیم کرنے کی صورت میں انھیں لازماً قیامت کے دن زندہ ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا۔ چنانچہ فرمایا، ان سے کہہ اگر واقعی تم کچھ جانتے ہو تو بتاؤ یہ زمین اوراس میں جو کچھ ہے، اس کا مالک کون ہے؟
➋ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ: ”تَذَكُّرٌ“(تفعّل) کا اصل معنی یاد کرنا ہے۔” تَذَكَّرُوْنَ “ اصل میں ” تَتَذَكَّرُوْنَ “ ہے، یعنی تو پھر تم اپنی فطرت میں رکھی ہوئی اس بات کو یاد کیوں نہیں کرتے جو غفلت میں پڑ کر بھلا چکے ہو اور اس سے نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے کہ جب زمین کا اور اس میں موجود ہر چیز کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر مالک کو چھوڑ کر مملوک کی پوجا کیوں؟ اور جب تم میں سے معمولی شخص بھی اس بات پر تیار نہیں کہ وہ اپنے غلاموں سے پوچھ گچھ نہ کرے، یا انھیں ان کی کارکردگی کا صلہ نہ دے، یا ان کے درمیان عدل نہ کرے، تو تم نے اس قادرِ مطلق اور حکیمِ کامل کے متعلق کیسے سوچ لیا کہ وہ تمھیں دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا، یا نہیں کرے گا اور اس کے بندے جو بھی کرتے رہیں نہ ان سے باز پرس کرے گا، نہ انھیں ان کے کیے کی جزا سزا دے گا اور نہ ان کے درمیان عدل فرمائے گا۔