(آیت 71) ➊ وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ …: یعنی اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلے تو زمین و آسمان کا یہ سلسلہ تباہ ہو جائے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے کی خواہش سے ٹکراتی ہے اور ان کا علم محدود ہے، نہ پوری موجود کائنات کا علم رکھتے ہیں، نہ آئندہ کی کچھ خبر رکھتے ہیں۔ ان کی خواہشات پر عمل کا نتیجہ بربادی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ دور کیوں جائیے، ملکوں کے منتخب نمائندے ایک قانون بناتے ہیں، جب اس کی خرابیاں سامنے آتی ہیں تو اسے ختم کر کے اور بنا دیتے ہیں، کچھ دیر کے بعد اسے بھی بدلنا پڑتا ہے۔ کتنے قانون انھوں نے خود بنائے، جن کے نتیجے میں وہ خود پھانسی کے پھندے میں جھول گئے۔ پھر یہ لوگ تو اللہ کے سوا کئی معبودوں کی پرستش کرتے ہیں، اگر ان کی خواہش کے مطابق ایک سے زیادہ معبودوں کے ہاتھ میں کائنات کا نظام دے دیا جائے تو سوچ لو کہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ سلسلہ چل سکتا ہے؟ یہ کائنات تو صرف ایک مالک کے حکم پر چل رہی ہے، جو خود حق ہے، اس کا کلام حق ہے اور اس کا سب کچھ برحق ہے۔ دیکھیے سورۂ انبیاء کی آیت (۲۲): «لَوْ كَانَ فِيْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا» کی تفسیر۔
➋ بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ …: ذکر کے دو معنی ہیں، ایک نصیحت اور ایک عز و شرف اور ناموری، یہاں دونوں درست ہیں۔ نصیحت اس لیے کہ کفار مکہ کہہ سکتے تھے: «لَوْ اَنَّاۤ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّاۤ اَهْدٰى مِنْهُمْ»[ الأنعام: ۱۵۷ ]”اگر ہم پر کتاب نازل کی جاتی تو ہم پہلی امتوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کو شکوے کا موقع ہی نہیں دیا اور خود ہی وہ کتاب نازل فرما دی جو ان کے لیے نصیحت ہے، مگر چونکہ اس میں ان کے عیوب اور خامیوں کی اصلاح کی بات تھی، اس لیے تکبر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ اسے تسلیم کرنے کے بجائے اپنی ہی نصیحت اور خیر خواہی کی بات سے منہ موڑنے والے بن گئے۔ فعل ماضی ”أَعْرَضُوْا“ کے بجائے اسم فاعل ” مُعْرِضُوْنَ “ کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے صرف ایک دو بار ہی منہ نہیں موڑا، بلکہ پکے منہ موڑنے والے بن گئے۔ ذکر کا دوسرا معنی عز و شرف اور شہرت و ناموری ہے، یعنی یہ قرآن ایمان لانے والوں، خصوصاً عرب کے لیے تمام دنیا میں قیامت تک کے لیے عز و شرف اور ناموری کا باعث ہے، مگر یہ ایسے بدنصیب ہیں کہ انھیں اپنی ناموری اور اپنا عز و شرف بھی راس نہیں آتا۔ یہ دوسرا مطلب یہاں زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)